Wednesday, February 10, 2010

قراءت سے متعلق کچھ مزید سنتوں کا بیان


ہم معنی سورتوں کو اکٹھا پڑھنا
سنت مطہرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کبھی کبھارنماز میں ان سورتوں کو ایک ہی رکعت میں پڑھا کرتے تھے جو معانی اور ٕمضمون میں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے "مفصل" سورتوں میں سے درج ذیل دو دو سورتیں ایک ہی رکعت میں پڑھیں۔ سورۃ ق یا اس سے اگلی سورۃ الحجرات سے لے کر سورۃ الناس تک کی سورتیں "مفصل" کہلاتی ہیں۔
{ الرَّحْمَن } (55 : 78 ) اور { النَّجْم } (53 : 62)
{ اقْتَرَبَتِ } (54 : 55) اور { الحَاقَّة } (69 : 52)
{ الطُّور } (52 : 49) اور { الذَّارِيَات } (51: 60)
{ إِذَا وَقَعَتِ } (56 : 96) اور { ن } (68 : 52)
{ سَأَلَ سَائِلٌ } (70 : 44) اور { النَّازِعَات } (79 : 46)
{ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ } (83 : 36) اور { عَبَسَ } (80 : 42)
{ المُدَّثِّر } (74 : 56) اور { المُزَّمِّل } (73 : 20)
{ هَلْ أَتَى } (76 : 31) اور { لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ القِيَامَةِ } (75 : 40)
{ عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ } (78 : 40) اور { المُرْسَلَات } (77 : 50)
{ الدُّخَان } (44 : 59) اور { إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ } (81 : 29)
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب ترتیل القراءۃ و اجتناب الھذ ، سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب تخریب القرآن، صحیح سنن ابی داؤدحدیث نمبر 1262)
ترتیب مصحف کا خیال رکھنا افضل ہے، ضروری نہیں:
اس فہرست میں سورت کے نام کے بعد دائیں جانب سورت نمبر اور بائیں جانب اس سورت میں آیات کی تعداد لکھی گئی ہے جس پر غور کرنے سے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےانہیں مصحف میں موجود ترتیب کے مطابق نہیں پڑھا جس سے ترتیب کے خلاف پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے، لیکن ترتیب کا خیال رکھنا افضل اور بہتر ہے۔ اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جس میں ذکر ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے تہجد پڑھتے ہوئے سورۃ البقرۃ، سورۃ النساء اور سورۃ آل عمران کو اسی ترتیب سے ایک ہی رکعت میں پڑھا تھا، یعنی سورۃ آل عمران کو سورۃ النساء کے بعد پڑھا جبکہ مصحف میں وہ سورۃ النساء سےپہلے آتی ہے ۔
لمبے قیام کی فضیلت
نماز میں لمبا قیام کرنا اور قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ قراءت کرنا افضل ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےفرمایا:
أَفْضَلُ الصَّلَاةِ طُولُ الْقِيَامِ
(شرح معانی الآثار کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی رکعتی الفجر، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب افضل الصلاۃ طول القنوت)
"افضل نماز وہ ہے جس میں لمبا قیام کیا جائے"
آیات کا جواب دینا
نماز میں کچھ آیات کا جواب دینا بھی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ مثلا:
جب سورۃ القیامۃ کی آخری آیت پڑھی جائے کہ أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ المَوْتَى (تو کیا وہ (اللہ) اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کرے؟" تو اس کے جواب میں کہا جائے " سبحانك فَبَلى
(السنن الکبرٰی للبیہقی، صحیح سنن ابن داؤد حدیث نمبر 827)
سورۃ الاعلی میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى کے جواب میں سبحان ربي الأعلى پڑھنا چاہیے۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الدعاء فی الصلاۃ، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر826)
اس حدیث کے الفاظ مطلق ہیں جب بھی یہ آیات پڑھی جائیں تو ان کا جواب دینا چاہیے چاہے انہیں نماز میں پڑھا جائے یا نماز سے باہر، اور نماز خواہ نفلی ہو یا فرض۔ابن ابی شیبہ نے ابو موسٰی اشعری اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہےکہ وہ دونوں جب فرض نماز میں ان کی تلاوت کرتے تو جواب میں یہ کلمات کہتےتھے اور عمر رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ سے مطلقًا منقول ہے۔

0 تبصرے:

تبصرہ کریں ۔۔۔