Monday, January 4, 2010

سترے کے مسائل


                سترے کی اہمیت اور وجوب

نمازی کے لیے واجب ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت اپنےآگے کوئی چیز   رکھے اور اس کی آڑ لے کر نماز پڑھے تا کہ اگرکوئی شخص سامنے سے گزرنا چاہے تو اس کے دوسری جانب سے گزرجائے اور نمازی کے آگے سے گزرنے کی وجہ سے گناہگار نہ ہو۔ایسی چیز  یا آڑ کو سترہ کہا جاتا ہے۔   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سترہ رکھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے  اوراس کے بالکل قریب اس طرح کھڑے ہوتے تھے  کہ ان کے (سجدہ کرنے کی جگہ)اور (سترہ بنائی گئی) دیوار کےدرمیان تین ہاتھ کا فاصلہ ہوتا تھا1۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سجدے کی جگہ اور دیوار کے درمیان صرف بکری کے گزرنے کی گنجائش ہوتی2۔
سترہ رکھنے کا حکم ہر نمازی کے لیے ہے خواہ وہ مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر کسی جگہ پر نماز ادا کر رہا ہو۔ مسجد الحرام میں نماز پڑھنےوالوں کو بھی سترے کا التزام کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے فرمان مبارک میں کسی بھی جگہ کو اس حکم سے مستثنٰی نہیں فرمایاہےجیساکہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
لاَ تُصَلِّ إِلاَّ إِلَى سُتْرَةٍ ، وَلاَ تَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْكَ ، فَإِنْ أَبَى فَلْتُقَاتِلْهُ ؛ فَإِنَّ مَعَهُ الْقَرِينَ
(صحیح ابن خزیمہ جل دوم ص9 مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت باب النھی عن الصلاۃ الی غیر سترۃ۔ (صحیح ابن خزیمہ1/93/1، بسند جید)
“تو کبھی بھی سترہ رکھے بغیر نماز نہ پڑھ اور (پھر) کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دے، اگر وہ (گزرنے والا) باز نہ آئے تو اس سے لڑ، کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہے”
سترے کے قریب کھڑے ہوکر نماز اد اکرنا شیطان کی وسوسہ اندازی سے بچنے کا سبب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى سُتْرَةٍ فَلْيَدْنُ مِنْهَا لَا يَقْطَعْ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ (صحیح سنن ابی داؤد حدیث695، والبزار(ص54۔زوائدہ)، و الحاکم و صححہ، و وافقہ الذھبی و النووی)
“جب تم میں سے کوئی (شخص) سترے کی طرف نماز پڑھے، تو اس کے قریب ہوجائے (تاکہ) شیطان (وسوسہ اندازی کر کے) اس کی نماز ( میں توجہ اور خشوع و خضوع ) نہ توڑ دے”
کس چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے:
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  مسجد میں نماز پڑھتے وقت کبھی کبھار ستون کے قریب کھڑے ہو کر اسے سترہ بنا لیتے اور نماز ادا فرماتے تھے3  اور جب کبھی ایسے کھلے میدان میں نماز ادا فرماتے جہاں کوئی چیز سترہ بنانے کے لیے موجود نہ ہوتی تو اپنے سامنے نیزہ گاڑ لیتے پھر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور صحابہ کرام ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے نماز ادا کرتے4۔ کبھی کبھار اپنی سواری کو سامنے بٹھا کر اس کے پہلو کی طرف کھڑے ہو کر نماز ادا فرماتے5۔ البتہ اونٹوں کے باڑے میں نماز ادا کرنے سے منع فرمایا6۔ اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کو سترہ بنا کر بھی نماز ادا فرمائی7۔ ایک مرتبہ ایک درخت کو سترہ بنایا8  اور کبھی اس بستر کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرماتے جس پر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا چادر اوڑھے لیٹی ہوتی تھیں9۔ سترے کی مقدار کا تعین کرتے ہوئے فرمایا:
إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِ مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ (صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب سترۃ المصلی )
“جب تم میں سے کوئی (شخص) نماز ادا کرتے وقت اپنے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر( اونچائی) میں کوئی چیز رکھ لے تو نماز پڑھ لیا کرے اور کچھ پرواہ نہ کرے کہ اس (کے سترے کے) دوسری جانب کون گزر رہا ہے”
اس حدیث سے جہاں سترے کی کم از کم اونچائی معلوم ہوتی ہے وہیں اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ زمین پر خط کھینچ کر اسے سترہ قرار دینا درست نہیں ہے۔سنن ابی داؤد میں جو حدیث اس بارے میں آئی ہے وہ ضعیف ہے۔ (اصل صفۃ صلاۃ ص119)
خلاصہ کلام یہ کہ کسی بھی آڑ بننے والی چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہےبشرطیکہ ہ وہ زمین کے ساتھ لگی ہو اور اس کی کم سے کم اونچائی اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے برابر (تقریبًا ڈیڑھ بالشت) ہو۔ زمین میں لاٹھی گاڑ کر اسے سترہ بنایا جا سکتا ہے، درخت، ستون،اور پہلو کی طرف سے سواری کے جانور کو بھی سترے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔بیٹھے یا لیٹے ہوئے شخص کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کی جا سکتی ہے خواہ وہ سامنے لیٹی ہوئی اپنی بیوی ہی ہو، لیکن کچھ علماء نے بیوی کوسترہ بنانے کو ناپسند کیا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تو معصوم تھے لیکن دوسرے لوگ ایسا کریں توان کی توجہ منتشر ہونے کا ڈر رہتا ہے۔
امام اور منفرد دونوں کے لیے سترہ رکھنا ضروری ہے چاہے آدمی بڑٰی مسجد میں ہو یا کسی چھوٹی مسجد میں نماز ادا کر رہا ہو۔ابن ھانی نے مسائل احمد بن حنبلؒ 1/66 میں بیان کیا ہے کہ ایک دن مجھےامام احمدؒ نے جامع مسجد میں بغیر سترے کے نماز ادا کرتے دیکھا تو سترہ رکھنے کا حکم دیا چنانچہ میں نے ایک شخص کو اپنا سترہ بنایا۔ جن شہروں میں مجھے جانے کا اتفاق ہوا ہے وہاں میں نے ائمہ مساجد اور نمازیوں کو دیکھا ہے کہ وہ سترے کا خیال نہیں رکھتے۔ مملکت سعودی عرب میں بھی یہی حال ہے۔ مجھے پہلی بار رجب 1410 میں وہاں جانے کا اتفاق ہوا اور میں نے وہاں یہی صورتحال دیکھی۔ علماء کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو سترے کی اہمیت سے آگاہ کریں اور انہیں اس سنت کے احیاء کی ترغیب دلائیں۔سترہ رکھنے کا حکم دیگر مساجد کی طرح حرمین شریفین میں نماز پڑھنے والوں کے لیے بھی ہے۔
نمازی اور سترے کے درمیان سے گزرنے والے کو روکنا:
نمازی اورسترے کے درمیان سے گزرنے والے کو سختی کےساتھ روکنا چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنے اور سترے کے درمیان کسی چیز کو نہیں گزرنے دیتے تھے۔  نا سمجھ بچے یا جانور وغیرہ کو روکنے کے لیے نماز میں چند قدم آگے بڑھنے کی بھی اجازت ہے۔   ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے کہ ایک بکری دوڑتی ہوئی آئی اور سامنے سے گزرنے کی کوشش کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جلدی فرمائی اور (سترے والی) دیوار کے قریب ہو گئے (تاکہ بکری کے گزرنے کا راستہ نہ رہے) یہاں تک کہ اپنا بطن مبارک دیوار سے لگا دیا10۔ اس پر بکری کو ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے سے گزرنا پڑا۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرض نماز پڑھائی تو نماز میں اپنا ہاتھ آگے کر کے پھر پیچھے کر لیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ نے عرض کیا “اے اللہ کے رسول! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے”؟ فرمایا:
لاَ إِلاَّ أَنَّ الشَّيْطَانَ أَرَادَ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَىَّ فَخَنَقْتُهُ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ لِسَانِهِ عَلَى يَدِى وَايْمُ اللَّهِ لَوْلاَ مَا سَبَقَنِى إِلَيْهِ أَخِى سُلَيْمَانُ لاَرْتُبِطَ إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِى الْمَسْجِدِ حَتَّى يُطِيفَ بِهِ وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ(فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ لَا يَحُولَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ أَحَدٌ فَلْيَفْعَلْ)
(سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی اعتراض الشیطان للمصلی لیفسد علیہ الصلاۃ، اسے امام احمد، اور طبرانی نے بھی صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)
“نہیں، بلکہ (بات یہ ہے کہ) شیطان میرےسامنے سے گزرنا چاہتا تھا تو میں اس کا گلا گھونٹ دیا، یہاں تک کہ میں نے اس کی زبان کی ٹھنڈک اپنے ہاتھ پر محسوس کی۔اللہ کی قسم! اگر میرے بھائی سلیمان (علیہ السلام) نے (جنات کو ماتحت رکھنے میں) سبقت نہ کی ہوتی تو اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیا جاتا اور اہل مدینہ کے بچے اسے بازاروں میں پھراتے11۔ پس تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو کہ اس کے اور قبلے (کی سمت میں اس کے آگے) سے کوئی چیز نہ گزرے تو اسے ضرور ایسا کرنا چاہیے12
دوسری حدیث میں یہی حکم اس طرح ہے کہ:
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنْ النَّاسِ فَأَرَادَ أَحَدٌ أَنْ  يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلْيَدْفَعْ فِي نَحْرِهِ ( وليدرأ ما استطاع)  ( وفي رواية : فليمنعه مرتين ) فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ     ( صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب منع المار بین یدی المصلی )
“جب تم میں سے کوئی (شخص) لوگوں (کے گزرنے) سے (بچنے) کے لیے سترہ رکھ کر نماز پڑھے پھر اس کے (اور سترے کے درمیان) سامنے سے کوئی گزرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ اس کی گردن سے پکڑ کر اسے پیچھے دھکیل دےاور پوری قوت سے اسے ہٹائے۔( ایک رویت میں ہے کہ دوبار اس کو ہاتھ سے روکے) اگر وہ نہ رکے تو اس سے جھگڑا کرے کیونکہ وہ شیطان ہے”
نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ (صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب اثم المار بین یدی المصلی )
“اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر (کتنا گناہ) ہے و وہ چالیس (سال) کھڑا رہنے کو آگے سے گزرنے سے بہتر سمجھے”
سترے کی غیرموجودگی میں نماز توڑنے والی چیزیں:
اگر کوئی شخص سترہ رکھے بغیر نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے سامنے سے بالغ عورت، گدھا یا سیاہ کتا گزر جائے تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ البتہ بیوی سامنے لیٹی ہو تو اسے سترہ بنا کر نماز پڑھنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ گویا نماز ٹوٹنے کا تعلق گزرنے سے ہے لیٹنے سے نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
يَقْطَعُ الصَّلَاةَ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْ الرَّجُلِ مِثْلُ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ قَالَ قُلْتُ مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنْ الْأَحْمَرِ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي فَقَالَ الْكلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ (مسلم و ابو داؤد)
“اگر نمازی کے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر اونچا سترہ نہ ہو تو (بالغ) عورت، گدھے اور سیاہ کتے کے سامنے سے گزر جانے پر اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے سیاہ کتے کو خاص کرنے کی وجہ پوچھی  تو فرمایا “سیاہ کتا شیطان ہوتا ہے”
اس حدیث میں  نماز ٹوٹنے سے مراد نماز باطل ہونا ہے یعنی اس کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔ اس بارے میں جو حدیث بیان کی جاتی ہے کہ “کوئی چیز نماز نہیں توڑتی”  وہ ضعیف ہے۔ میں نے اس پر اپنی تحقیق “تمام المنۃ” ص 306 پر بیان کی ہے۔
 امام نے اپنے آگے سترہ رکھا ہو تو وہ مقتدیوں کو الگ سے سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے لیے امام کا سترہ ہی کافی ہے، یعنی ایسی صورت میں مقتدیوں کے سامنے سےگزرنے پر ان کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔(اصل صفۃ صلاۃ ص 135)
قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت:
قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے خواہ وہ انبیاء علیہم السلام میں سے کسی کی قبر ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ذی شان ہے:
لَا تُصَلُّوا إِلَى الْقُبُورِ وَلَا تَجْلِسُوا عَلَيْهَا (مسلم و ابوداؤد، و ابن خزیمہ (1/95/ 2)
“قبروں کی طرف منہ کر کے نمازمت ادا کرو اور نہ ان پر بیٹھو”
تفصیل کے طالب میری کتاب “تحذیر الساجد من اتخاذ القبور المساجد” اور “ احکام الجنائز و بدعھا” دیکھیں۔


1                 ۔صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ بین السواری فی غیر جماعۃ۔ صحیح سنن نسائی حدیث 749، ابن سعد (1/253)، و ھو مخرج فی “الارواء” (543)
2                 ۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب قدر کم ینبغی ان یکون بین المصلی و السترۃ، و  رواہ مسلم ایضًا
3                 ۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی الاسطوانۃ، مسلم، بیہقی، احمد۔
4                 ۔ صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الصلاۃ الی الحربۃ یوم العید، مسلم، ابن ماجہ
5                 ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب سترۃ المصلی، احمد
6                 ۔ صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 348۔ سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی الصلاۃ فی مرانض الغنم و اعطان الابل
7                 ۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی الراحلۃ و البعیر و الشجر و الرحل، مسلم  و ابن خزیمہ (92/2) و احمد
8                 ۔ مسند احمد مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ و من مسند علی ابن ابی طالب
9                 ۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی السریر
1             0                 ۔ صحیح ابن خزیمہ جلد دوم ص 20 مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت (باب بَابُ النَّهْيِ عَنِ الصَّلاَةِ إِلَى غَيْرِ سُتْرَةٍ.)
1             1                 ۔۔اس معنی کی احادیث صحیحین میں متعدد صحابہ سے بیان ہوئی ہے۔ یہ ان کثیر احادیث میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے قادیانیوں کو کافر قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ جنوں کے وجود پر ایمان نہیں رکھتے حالانکہ ان کا وجود قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں جہاں جنوں کا ذکر ہے مثلا "قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن" وغیرہ تو اس کی معنوی تحریف کرتے ہوتے وہ کہتے ہیں کہ یہاں "جن" سے مراد  انسان ہی ہیں نہ کہ کوئی دوسری مخلوق اور یہ کہ "جن" اور "انس" مترادف اور ہم معنی لفظ ہیں، اس طرح کی حرکات کی وجہ سے وہ لغت اور شرع دونوں کی حدود سے نکل جاتے ہیں۔ اور اگر جنوں کو وجود سنت سے ثابت کیا جائے تووہ اسے بھی اپنی باطل تاویلوں اور معنوی تحریف کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں ، جہاں یہ ممکن نہ ہو تو اس حدیث کو تسلیم کرنے ہی سے انکاری ہو جاتے ہیں چاہے وہ متواتر ہی کیوں نہ ہو اور چاہے ائمہ حدیث اور امت اس کے صحیح ہونے پر متفق ہی ہوں۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔
1             2                 ۔ مسند احمد کی  روایت میں اس آخری جملے کا اضافہ ہے۔ دیکھیے  مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ

0 تبصرے:

تبصرہ کریں ۔۔۔