Monday, January 4, 2010

نیت، تکیبر تحریمہ اور قیام کے مسائل

            نماز کی نیت کا بیان

نماز ادا کرنے سے پہلے اس کی نیت کرنی ضروری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ہے:
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى (صحیح البخاری کتاب البدء الوحی، حدیث نمبر1)
"اعمال نیتوں کے ساتھ ہیں اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی"
نیت کب کی جائے:
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  نے “روضۃ الطالبین” میں لکھا ہے کہ" نیت کا مطلب ارادہ کرنا ہے۔ نماز کی نیت تکبیر تحریمہ کہتے وقت کی جانی چاہیے یعنی نمازی اس وقت اپنے ذہن میں خیال کرے کہ وہ کون سی نماز ادا کرنے جا رہا ہے ، مثلا یہ کہ نماز کی رکعات کتنی ہیں اور وہ ظہر کی نماز ہے یانفل نماز ہے وغیرہ"۔[1]
زبان سے نیت کے الفاظ کہنا بدعت ہے:
زبان سے نیت کے الفاظ کہنا سنت مطہرہ سے ثابت نہیں ہے۔ لوگوں میں زبانی نیت کے جو کلمات مشہور ہیں مثلًا “نیت کی میں نے اس نماز کی، خاص واسطے اللہ تعالیٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف” وغیرہ   ان کے بدعت ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ البتہ انہوں نےاس کے اچھا یا برا ہونے میں اختلا ف کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ عبادات میں کیا گیاہر اضافہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دین میں نئی چیزیں نکالنے سےمنع کرتے ہوئے  ہر بدعت سے بچنے کا حکم دیا ہے:
وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ (سنن النسائی الصغریٰ کتاب صلاۃ العیدین باب کیف الخطبہ، صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 1578)
                    "اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ( یعنی جہنم) میں ہے"

            تکبیر تحریمہ اورقیام کے مسائل

جب نمازی  قبلہ رخ کھڑے ہو کر نماز شروع کرنے کا ارادہ کرے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں یا کانوں کی لو تک بلند کر کے “اللہ اکبر” کہے۔ اسے تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔ یہ نماز کے ارکان میں سے ہے یعنی اسے کہے بغیر نماز درست نہیں ہوتی۔
تکبیر تحریمہ کہنا ضروری ہے
  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنی نماز کا آغاز "اللہ اکبر"[2] کہہ کر فرمایا کرتے تھے۔ ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والےایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے فرمایا تھا:
إِنَّهُ لا تَتِمُّ صَلاةٌ لأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ فَيَضَعَ الْوُضُوءَ مَوَاضِعَهُ ، ثُمَّ يَقُولُ : اللَّهُ أَكْبَرُ (المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر4399)
"لوگوں میں سے کسی کی نماز اس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک وہ اچھی طرح وضو  کرنے کے بعد  "اللہ اکبر" نہ کہہ لے" 
جمہور علماء کے نزدیک اس حدیث کی روشنی میں نمازکا آغاز “اللہ اکبر” کے سوا دوسرے الفاظ (جیسے “الرحمٰن اکبر وغیرہ )سے نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری حدیث میں ہے:
مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فرض الوضوء، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 139)
"طہارت (یعنی وضو) نماز کی کنجی ہے، اور تکبیر تحریمہ کہنا نماز کی حُرمت ہے (یعنی اس سے نماز کی حرمت  کا آغاز ہو جاتا ہے اوروہ تمام کام حرام ہو جاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے نماز میں منع فرمایا ہے) اور ( پھر نماز کے آخر پر)سلام کہنے سے حلال ہوتے ہیں"۔
گویا جس طرح کسی عمارت میں داخلے کے لیے اس کا دورازہ کھولنا ضروری ہوتا ہے اسی طرح ناپاکی کی حالت انسان اور نماز کے درمیان حائل ہوتی ہے جسے کھولے بغیر نماز کا آغاز نہیں کیا جا سکتا اوروضو اور طہارت  ہی وہ کنجی ہیں جن کے ذریعے آدمی ناپاکی کے اس دروازے کو کھول کر نماز میں داخل ہو سکتا ہے۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں منع کیے گئے کاموں اس وقت تک ممنوع ہی رہتے ہیں جب تک نمازی سلام نہ پھیر دے، جمہور کا مذہب یہی ہے۔
امام اور مقتدی دونوں تکبیر تحریمہ کہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب جماعت کرواتے توتکبیر تحریمہ کو بلند آواز سے کہا کرتے تھے تا کہ پیچھے موجود تمام نمازیوں تک آواز پہنچ جائے[3]۔جب کبھی آپ  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بیمار ہوتے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ اونچی آواز سے تکبیر کہتے تا کہ لوگوں کو ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تکبیر کی خبر ہو جائے[4]۔ امام اور مقتدی دونوں کو تکبیر تحریمہ کہنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
إذا قال الإمام : الله أكبر فقولوا : الله أكبر (احمد و البیہقی بسند صحیح، مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری)
"جب امام "اللہ اکبر"کہے تو تم بھی "اللہ اکبر"کہاکرو"۔
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ  امام کی بیماری، نمازیوں کی کثرت یا کسی دوسرے عذر کی موجودگی میں موذن یا کسی دوسرے مقتدی کے لیے  امام کے پیچھے پیچھے بلند آواز میں تکبیرات کہنا جائز ہے  تا کہ باقی تمام لوگوں تک آواز پہنچ سکے اوراس کا  طریقہ یہ ہے  کہ تکبیر بلند کرنے والا شخص امام کی تکبیر ختم ہونے کے فورًا بعد اپنی تکبیر شروع کرے ۔  البتہ اکیلے نماز پڑھنے والا شخص اپنی تکبیرات آہستہ ہی کہے گا۔
تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہاتھ کیسے اٹھائے جائیں:
تکبیر تحریمہ کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک[5] اور بعض دفعہ کانوں (کی لو) تک  بلندکرنا سنت ہے[6]۔  البتہ ایسا کرتے وقت کانوں کو چھونا سنت سے ثابت نہیں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کبھی تو تکبیرتحریمہ کہنےکے  ساتھ ہی ہاتھوں کو بلند فرما لیا کرتے تھے[7] اور کبھی کبھار پہلے ہاتھ اٹھا لیتے اور پھر تکبیر کہتے اور کبھی تکبیر کہنے کے فورًا بعد ہاتھ اٹھاتے تھے[8]  لہذاکسی ایک سنت پر  عامل ہونے کی بجائے ان تینوں طریقوں کو اپنی نمازوں  میں ادل بدل کر اختیار کرنا چاہیے کیونکہ یہ سب حدیث سے ثابت ہیں۔
  ہاتھ اٹھاتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  ہاتھوں کی انگلیوں کو فطری انداز میں کھلا رکھتے تھے یعنی ان کے درمیان جان بوجھ کر فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش نہیں فرماتے تھے اور نہ ہی ان کو ملاتے تھے  بلکہ اپنی اصل حالت میں چھوڑدیتے تھے [9]۔
دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر رکھنے کا حکم:
تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے[10] یہ انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاپنے فرمان مبارک میں بتایا ہے:
إنا معشر الأنبياء أُمِرنَا أن نعجِّل إفطارنا و نؤخر سحورنا و نضع أيماننا على شمائلنا في الصلاة (صحیح الجامع الصغیر حدیث نمبر، 4050، صحیح ا بن حبان کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ
"ہم انبیاء کی جماعت  کوافطار  میں جلدی  اور سحری میں تاخیرکرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ (حکم بھی دیا گیا ہے کہ) کہ ہم نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پررکھیں"۔
 ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گذرے جو باہنے ہاتھ کو داہنے ہاتھ کے اوپر رکھ کر نماز ادا کر رہا تھا تو انہوں نے اس کے ہاتھ کو کھینچا اور دائیں کو بائیں کے اوپر کر کے رکھ دیا۔[11]
ہاتھ کیسے باندھے جائیں:
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہمیشہ سینے پر ہاتھ باندھا کرتے تھے[12] اور اس کی کیفیت یہ ہوتی کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پراس طرح رکھتے کہ وہ ہتھیلی کی پشت، جوڑ اور کلائی پر آ جائے[13]   اسی کا حکم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی دیا[14]۔ کبھی کبھار دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کوتھام لیا کرتے تھے[15]۔ یہ دونوں اپنی جگہ الگ الگ سنت ہیں۔ حنفیہ میں بعض متاخرین نے ان دونوں کو اکٹھا کرکے جو طریقہ بیان کیا ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا جائے، درمیانی انگلیاں کلائی پر ہوں اور چھوٹی انگلی اور انگوٹے سے کلائی تو تھاما جائے تو وہ بدعت ہے اس لیے ان کے قول سے دھوکہ نہ کھانا چاہیے۔ افضل یہ ہے کہ  کبھی بائیں ہتھیلی کی پشت، جوڑ اور کلائی پر دایاں ہاتھ رکھا جائے اور کبھی دائیں ہاتھ سے بائیں کو تھاما جائے تا کہ دونوں سنتوں پر عمل ہوتا رہے۔
 نماز میں پہلوؤں پر ہاتھ رکھنے سے منع فرمایا [16] گیا ہے (کیونکہ) یہ صلیب پرستوں کا انداز ہے اور یہود و نصارٰی کی مشابہت اختیار کرنا  سے  مسلمانوں کے لیے ممنوع ہے۔[17]
سینے پر ہاتھ باندھنا ہی سنت سے ثابت ہے:
سینے پر ہاتھ باندھنا سنت مطہرہ سے ثابت ہے  اس کے خلاف جو کچھ بھی ہے وہ یا تو ضعیف ہے یا اس کی کوئی اصل ہی نہیں۔ امت کے کئی بڑے امام اسی طریقے پر عامل رہے ہیں مثلا امام اسحاق بن راہویہؒ کے متعلق امام المروزی “المسائل” ص  222میں لکھتے ہیں:
“امام اسحاقؒ ہمیں وتر کی نماز پڑھایا کرتے تھے۔ وہ رکوع سے قبل ہاتھ اٹھا کر قنوت کیا کرتے  تھے اور (نماز میں) اپنے ہاتھ سینے پر رکھتے تھے”۔
اسی سے ملتی جلتی بات قاضی عیاض المالکیؒ نے “مستحبات الصلاۃ” (ص15۔ الطبعۃ الثالثۃ۔ الرباط) میں کہی ہے کہ “دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر گردن کے قریب رکھا جائے”
امام احمد بن حنبل ؒ کے صاحبزادے عبداللہ بن احمدؒ “المسائل ۔ص 62) کہتے ہیں “ میں نے اپنے والد (امام احمد بن حنبلؒ) کو دیکھا کہ جب وہ نماز پڑھتے تو ایک ہاتھ کو دوسرے پر رکھ کر ناف کے اوپر باندھا کرتے تھے” دیکھیے “ارواء الغلیل ص 353۔


[1]                  ۔  روضۃ الطالبین 1/224
[2]                  ۔ صحیح مسلم  بَاب مَا يَجْمَعُ صِفَةَ الصَّلَاةِ وَمَا يُفْتَتَحُ بِهِ وَيُخْتَمُ بِهِ وَصِفَةَ الرُّكُوعِ
[3]                  ۔ مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری،  المستدرک کتاب الامامۃ و و صلاۃ الجماعۃ باب حدیث عبدالوہاب، امام حاکم نے اسے صحیح کہا اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
[4]                  ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب من أسمع الناس تکبیر الامام، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ائتمام الماموم بالامام۔
[5]                            ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الیٰ این یرفع یدیہ
[6]                            ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام ،
[7]                            ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الیٰ این یرفع یدیہ
[8]                            ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام حدیث مالک بن الحویرث  رضی اللہ عنہ
[9]                            ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، صحیح سنن ابی داؤد  حدیث نمبر 753
[10]                         ۔ سنن ابی داؤد  کتاب الصلاۃ باب رفع الیدین فی الصلاۃ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ۔ صحیح سنن ابی داؤد  حدیث نمبر 727
[11]                         ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلاۃ حدیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، صحیح سنن ابن داؤد حدیث نمبر 755
[12]                         ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب وضع الیمنٰی علی الیسریٰ ۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 759۔صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر 479۔ مسند احمد بن حنبل مسند الانصار  حدیث ھلب الطائی  رضی اللہ۔
[13]                         ۔ سنن ابی داؤد  کتاب الصلاۃ باب رفع الیدین فی الصلاۃ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ۔ صحیح سنن ابی داؤد  حدیث نمبر 727
[14]                         ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب وضع الیمنٰی علی الیسریٰ فی الصلاۃ حدیث سھل بن سعد رضی اللہ عنہ، الموطا امام مالک کتاب النداء للصلاۃ باب وضع الیدین احداھما علی الاخریٰ فی الصلاۃ
[15]                       ۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 2247 جلد 5 ص 246۔ صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 1031۔
[16]                         ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الرجل یصلی مختصرا۔صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 947
[17]                         ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی التخصر و الاقعاء، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 903

0 تبصرے:

تبصرہ کریں ۔۔۔