Monday, January 4, 2010

نیت، تکیبر تحریمہ اور قیام کے مسائل

            نماز کی نیت کا بیان

نماز ادا کرنے سے پہلے اس کی نیت کرنی ضروری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ہے:
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى (صحیح البخاری کتاب البدء الوحی، حدیث نمبر1)
"اعمال نیتوں کے ساتھ ہیں اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی"
نیت کب کی جائے:
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  نے “روضۃ الطالبین” میں لکھا ہے کہ" نیت کا مطلب ارادہ کرنا ہے۔ نماز کی نیت تکبیر تحریمہ کہتے وقت کی جانی چاہیے یعنی نمازی اس وقت اپنے ذہن میں خیال کرے کہ وہ کون سی نماز ادا کرنے جا رہا ہے ، مثلا یہ کہ نماز کی رکعات کتنی ہیں اور وہ ظہر کی نماز ہے یانفل نماز ہے وغیرہ"۔[1]
زبان سے نیت کے الفاظ کہنا بدعت ہے:
زبان سے نیت کے الفاظ کہنا سنت مطہرہ سے ثابت نہیں ہے۔ لوگوں میں زبانی نیت کے جو کلمات مشہور ہیں مثلًا “نیت کی میں نے اس نماز کی، خاص واسطے اللہ تعالیٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف” وغیرہ   ان کے بدعت ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ البتہ انہوں نےاس کے اچھا یا برا ہونے میں اختلا ف کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ عبادات میں کیا گیاہر اضافہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دین میں نئی چیزیں نکالنے سےمنع کرتے ہوئے  ہر بدعت سے بچنے کا حکم دیا ہے:
وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ (سنن النسائی الصغریٰ کتاب صلاۃ العیدین باب کیف الخطبہ، صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 1578)
                    "اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ( یعنی جہنم) میں ہے"

            تکبیر تحریمہ اورقیام کے مسائل

جب نمازی  قبلہ رخ کھڑے ہو کر نماز شروع کرنے کا ارادہ کرے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں یا کانوں کی لو تک بلند کر کے “اللہ اکبر” کہے۔ اسے تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔ یہ نماز کے ارکان میں سے ہے یعنی اسے کہے بغیر نماز درست نہیں ہوتی۔
تکبیر تحریمہ کہنا ضروری ہے
  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنی نماز کا آغاز "اللہ اکبر"[2] کہہ کر فرمایا کرتے تھے۔ ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والےایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے فرمایا تھا:
إِنَّهُ لا تَتِمُّ صَلاةٌ لأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ فَيَضَعَ الْوُضُوءَ مَوَاضِعَهُ ، ثُمَّ يَقُولُ : اللَّهُ أَكْبَرُ (المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر4399)
"لوگوں میں سے کسی کی نماز اس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک وہ اچھی طرح وضو  کرنے کے بعد  "اللہ اکبر" نہ کہہ لے" 
جمہور علماء کے نزدیک اس حدیث کی روشنی میں نمازکا آغاز “اللہ اکبر” کے سوا دوسرے الفاظ (جیسے “الرحمٰن اکبر وغیرہ )سے نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری حدیث میں ہے:
مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فرض الوضوء، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 139)
"طہارت (یعنی وضو) نماز کی کنجی ہے، اور تکبیر تحریمہ کہنا نماز کی حُرمت ہے (یعنی اس سے نماز کی حرمت  کا آغاز ہو جاتا ہے اوروہ تمام کام حرام ہو جاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے نماز میں منع فرمایا ہے) اور ( پھر نماز کے آخر پر)سلام کہنے سے حلال ہوتے ہیں"۔
گویا جس طرح کسی عمارت میں داخلے کے لیے اس کا دورازہ کھولنا ضروری ہوتا ہے اسی طرح ناپاکی کی حالت انسان اور نماز کے درمیان حائل ہوتی ہے جسے کھولے بغیر نماز کا آغاز نہیں کیا جا سکتا اوروضو اور طہارت  ہی وہ کنجی ہیں جن کے ذریعے آدمی ناپاکی کے اس دروازے کو کھول کر نماز میں داخل ہو سکتا ہے۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں منع کیے گئے کاموں اس وقت تک ممنوع ہی رہتے ہیں جب تک نمازی سلام نہ پھیر دے، جمہور کا مذہب یہی ہے۔
امام اور مقتدی دونوں تکبیر تحریمہ کہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب جماعت کرواتے توتکبیر تحریمہ کو بلند آواز سے کہا کرتے تھے تا کہ پیچھے موجود تمام نمازیوں تک آواز پہنچ جائے[3]۔جب کبھی آپ  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بیمار ہوتے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ اونچی آواز سے تکبیر کہتے تا کہ لوگوں کو ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تکبیر کی خبر ہو جائے[4]۔ امام اور مقتدی دونوں کو تکبیر تحریمہ کہنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
إذا قال الإمام : الله أكبر فقولوا : الله أكبر (احمد و البیہقی بسند صحیح، مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری)
"جب امام "اللہ اکبر"کہے تو تم بھی "اللہ اکبر"کہاکرو"۔
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ  امام کی بیماری، نمازیوں کی کثرت یا کسی دوسرے عذر کی موجودگی میں موذن یا کسی دوسرے مقتدی کے لیے  امام کے پیچھے پیچھے بلند آواز میں تکبیرات کہنا جائز ہے  تا کہ باقی تمام لوگوں تک آواز پہنچ سکے اوراس کا  طریقہ یہ ہے  کہ تکبیر بلند کرنے والا شخص امام کی تکبیر ختم ہونے کے فورًا بعد اپنی تکبیر شروع کرے ۔  البتہ اکیلے نماز پڑھنے والا شخص اپنی تکبیرات آہستہ ہی کہے گا۔
تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہاتھ کیسے اٹھائے جائیں:
تکبیر تحریمہ کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک[5] اور بعض دفعہ کانوں (کی لو) تک  بلندکرنا سنت ہے[6]۔  البتہ ایسا کرتے وقت کانوں کو چھونا سنت سے ثابت نہیں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کبھی تو تکبیرتحریمہ کہنےکے  ساتھ ہی ہاتھوں کو بلند فرما لیا کرتے تھے[7] اور کبھی کبھار پہلے ہاتھ اٹھا لیتے اور پھر تکبیر کہتے اور کبھی تکبیر کہنے کے فورًا بعد ہاتھ اٹھاتے تھے[8]  لہذاکسی ایک سنت پر  عامل ہونے کی بجائے ان تینوں طریقوں کو اپنی نمازوں  میں ادل بدل کر اختیار کرنا چاہیے کیونکہ یہ سب حدیث سے ثابت ہیں۔
  ہاتھ اٹھاتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  ہاتھوں کی انگلیوں کو فطری انداز میں کھلا رکھتے تھے یعنی ان کے درمیان جان بوجھ کر فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش نہیں فرماتے تھے اور نہ ہی ان کو ملاتے تھے  بلکہ اپنی اصل حالت میں چھوڑدیتے تھے [9]۔
دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر رکھنے کا حکم:
تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے[10] یہ انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاپنے فرمان مبارک میں بتایا ہے:
إنا معشر الأنبياء أُمِرنَا أن نعجِّل إفطارنا و نؤخر سحورنا و نضع أيماننا على شمائلنا في الصلاة (صحیح الجامع الصغیر حدیث نمبر، 4050، صحیح ا بن حبان کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ
"ہم انبیاء کی جماعت  کوافطار  میں جلدی  اور سحری میں تاخیرکرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ (حکم بھی دیا گیا ہے کہ) کہ ہم نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پررکھیں"۔
 ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گذرے جو باہنے ہاتھ کو داہنے ہاتھ کے اوپر رکھ کر نماز ادا کر رہا تھا تو انہوں نے اس کے ہاتھ کو کھینچا اور دائیں کو بائیں کے اوپر کر کے رکھ دیا۔[11]
ہاتھ کیسے باندھے جائیں:
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہمیشہ سینے پر ہاتھ باندھا کرتے تھے[12] اور اس کی کیفیت یہ ہوتی کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پراس طرح رکھتے کہ وہ ہتھیلی کی پشت، جوڑ اور کلائی پر آ جائے[13]   اسی کا حکم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی دیا[14]۔ کبھی کبھار دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کوتھام لیا کرتے تھے[15]۔ یہ دونوں اپنی جگہ الگ الگ سنت ہیں۔ حنفیہ میں بعض متاخرین نے ان دونوں کو اکٹھا کرکے جو طریقہ بیان کیا ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا جائے، درمیانی انگلیاں کلائی پر ہوں اور چھوٹی انگلی اور انگوٹے سے کلائی تو تھاما جائے تو وہ بدعت ہے اس لیے ان کے قول سے دھوکہ نہ کھانا چاہیے۔ افضل یہ ہے کہ  کبھی بائیں ہتھیلی کی پشت، جوڑ اور کلائی پر دایاں ہاتھ رکھا جائے اور کبھی دائیں ہاتھ سے بائیں کو تھاما جائے تا کہ دونوں سنتوں پر عمل ہوتا رہے۔
 نماز میں پہلوؤں پر ہاتھ رکھنے سے منع فرمایا [16] گیا ہے (کیونکہ) یہ صلیب پرستوں کا انداز ہے اور یہود و نصارٰی کی مشابہت اختیار کرنا  سے  مسلمانوں کے لیے ممنوع ہے۔[17]
سینے پر ہاتھ باندھنا ہی سنت سے ثابت ہے:
سینے پر ہاتھ باندھنا سنت مطہرہ سے ثابت ہے  اس کے خلاف جو کچھ بھی ہے وہ یا تو ضعیف ہے یا اس کی کوئی اصل ہی نہیں۔ امت کے کئی بڑے امام اسی طریقے پر عامل رہے ہیں مثلا امام اسحاق بن راہویہؒ کے متعلق امام المروزی “المسائل” ص  222میں لکھتے ہیں:
“امام اسحاقؒ ہمیں وتر کی نماز پڑھایا کرتے تھے۔ وہ رکوع سے قبل ہاتھ اٹھا کر قنوت کیا کرتے  تھے اور (نماز میں) اپنے ہاتھ سینے پر رکھتے تھے”۔
اسی سے ملتی جلتی بات قاضی عیاض المالکیؒ نے “مستحبات الصلاۃ” (ص15۔ الطبعۃ الثالثۃ۔ الرباط) میں کہی ہے کہ “دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر گردن کے قریب رکھا جائے”
امام احمد بن حنبل ؒ کے صاحبزادے عبداللہ بن احمدؒ “المسائل ۔ص 62) کہتے ہیں “ میں نے اپنے والد (امام احمد بن حنبلؒ) کو دیکھا کہ جب وہ نماز پڑھتے تو ایک ہاتھ کو دوسرے پر رکھ کر ناف کے اوپر باندھا کرتے تھے” دیکھیے “ارواء الغلیل ص 353۔


[1]                  ۔  روضۃ الطالبین 1/224
[2]                  ۔ صحیح مسلم  بَاب مَا يَجْمَعُ صِفَةَ الصَّلَاةِ وَمَا يُفْتَتَحُ بِهِ وَيُخْتَمُ بِهِ وَصِفَةَ الرُّكُوعِ
[3]                  ۔ مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری،  المستدرک کتاب الامامۃ و و صلاۃ الجماعۃ باب حدیث عبدالوہاب، امام حاکم نے اسے صحیح کہا اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
[4]                  ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب من أسمع الناس تکبیر الامام، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ائتمام الماموم بالامام۔
[5]                            ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الیٰ این یرفع یدیہ
[6]                            ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام ،
[7]                            ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الیٰ این یرفع یدیہ
[8]                            ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام حدیث مالک بن الحویرث  رضی اللہ عنہ
[9]                            ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، صحیح سنن ابی داؤد  حدیث نمبر 753
[10]                         ۔ سنن ابی داؤد  کتاب الصلاۃ باب رفع الیدین فی الصلاۃ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ۔ صحیح سنن ابی داؤد  حدیث نمبر 727
[11]                         ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلاۃ حدیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، صحیح سنن ابن داؤد حدیث نمبر 755
[12]                         ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب وضع الیمنٰی علی الیسریٰ ۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 759۔صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر 479۔ مسند احمد بن حنبل مسند الانصار  حدیث ھلب الطائی  رضی اللہ۔
[13]                         ۔ سنن ابی داؤد  کتاب الصلاۃ باب رفع الیدین فی الصلاۃ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ۔ صحیح سنن ابی داؤد  حدیث نمبر 727
[14]                         ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب وضع الیمنٰی علی الیسریٰ فی الصلاۃ حدیث سھل بن سعد رضی اللہ عنہ، الموطا امام مالک کتاب النداء للصلاۃ باب وضع الیدین احداھما علی الاخریٰ فی الصلاۃ
[15]                       ۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 2247 جلد 5 ص 246۔ صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 1031۔
[16]                         ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الرجل یصلی مختصرا۔صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 947
[17]                         ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی التخصر و الاقعاء، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 903

سترے کے مسائل


                سترے کی اہمیت اور وجوب

نمازی کے لیے واجب ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت اپنےآگے کوئی چیز   رکھے اور اس کی آڑ لے کر نماز پڑھے تا کہ اگرکوئی شخص سامنے سے گزرنا چاہے تو اس کے دوسری جانب سے گزرجائے اور نمازی کے آگے سے گزرنے کی وجہ سے گناہگار نہ ہو۔ایسی چیز  یا آڑ کو سترہ کہا جاتا ہے۔   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سترہ رکھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے  اوراس کے بالکل قریب اس طرح کھڑے ہوتے تھے  کہ ان کے (سجدہ کرنے کی جگہ)اور (سترہ بنائی گئی) دیوار کےدرمیان تین ہاتھ کا فاصلہ ہوتا تھا1۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سجدے کی جگہ اور دیوار کے درمیان صرف بکری کے گزرنے کی گنجائش ہوتی2۔
سترہ رکھنے کا حکم ہر نمازی کے لیے ہے خواہ وہ مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر کسی جگہ پر نماز ادا کر رہا ہو۔ مسجد الحرام میں نماز پڑھنےوالوں کو بھی سترے کا التزام کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے فرمان مبارک میں کسی بھی جگہ کو اس حکم سے مستثنٰی نہیں فرمایاہےجیساکہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
لاَ تُصَلِّ إِلاَّ إِلَى سُتْرَةٍ ، وَلاَ تَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْكَ ، فَإِنْ أَبَى فَلْتُقَاتِلْهُ ؛ فَإِنَّ مَعَهُ الْقَرِينَ
(صحیح ابن خزیمہ جل دوم ص9 مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت باب النھی عن الصلاۃ الی غیر سترۃ۔ (صحیح ابن خزیمہ1/93/1، بسند جید)
“تو کبھی بھی سترہ رکھے بغیر نماز نہ پڑھ اور (پھر) کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دے، اگر وہ (گزرنے والا) باز نہ آئے تو اس سے لڑ، کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہے”
سترے کے قریب کھڑے ہوکر نماز اد اکرنا شیطان کی وسوسہ اندازی سے بچنے کا سبب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى سُتْرَةٍ فَلْيَدْنُ مِنْهَا لَا يَقْطَعْ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ (صحیح سنن ابی داؤد حدیث695، والبزار(ص54۔زوائدہ)، و الحاکم و صححہ، و وافقہ الذھبی و النووی)
“جب تم میں سے کوئی (شخص) سترے کی طرف نماز پڑھے، تو اس کے قریب ہوجائے (تاکہ) شیطان (وسوسہ اندازی کر کے) اس کی نماز ( میں توجہ اور خشوع و خضوع ) نہ توڑ دے”
کس چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے:
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  مسجد میں نماز پڑھتے وقت کبھی کبھار ستون کے قریب کھڑے ہو کر اسے سترہ بنا لیتے اور نماز ادا فرماتے تھے3  اور جب کبھی ایسے کھلے میدان میں نماز ادا فرماتے جہاں کوئی چیز سترہ بنانے کے لیے موجود نہ ہوتی تو اپنے سامنے نیزہ گاڑ لیتے پھر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور صحابہ کرام ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے نماز ادا کرتے4۔ کبھی کبھار اپنی سواری کو سامنے بٹھا کر اس کے پہلو کی طرف کھڑے ہو کر نماز ادا فرماتے5۔ البتہ اونٹوں کے باڑے میں نماز ادا کرنے سے منع فرمایا6۔ اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کو سترہ بنا کر بھی نماز ادا فرمائی7۔ ایک مرتبہ ایک درخت کو سترہ بنایا8  اور کبھی اس بستر کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرماتے جس پر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا چادر اوڑھے لیٹی ہوتی تھیں9۔ سترے کی مقدار کا تعین کرتے ہوئے فرمایا:
إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِ مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ (صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب سترۃ المصلی )
“جب تم میں سے کوئی (شخص) نماز ادا کرتے وقت اپنے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر( اونچائی) میں کوئی چیز رکھ لے تو نماز پڑھ لیا کرے اور کچھ پرواہ نہ کرے کہ اس (کے سترے کے) دوسری جانب کون گزر رہا ہے”
اس حدیث سے جہاں سترے کی کم از کم اونچائی معلوم ہوتی ہے وہیں اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ زمین پر خط کھینچ کر اسے سترہ قرار دینا درست نہیں ہے۔سنن ابی داؤد میں جو حدیث اس بارے میں آئی ہے وہ ضعیف ہے۔ (اصل صفۃ صلاۃ ص119)
خلاصہ کلام یہ کہ کسی بھی آڑ بننے والی چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہےبشرطیکہ ہ وہ زمین کے ساتھ لگی ہو اور اس کی کم سے کم اونچائی اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے برابر (تقریبًا ڈیڑھ بالشت) ہو۔ زمین میں لاٹھی گاڑ کر اسے سترہ بنایا جا سکتا ہے، درخت، ستون،اور پہلو کی طرف سے سواری کے جانور کو بھی سترے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔بیٹھے یا لیٹے ہوئے شخص کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کی جا سکتی ہے خواہ وہ سامنے لیٹی ہوئی اپنی بیوی ہی ہو، لیکن کچھ علماء نے بیوی کوسترہ بنانے کو ناپسند کیا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تو معصوم تھے لیکن دوسرے لوگ ایسا کریں توان کی توجہ منتشر ہونے کا ڈر رہتا ہے۔
امام اور منفرد دونوں کے لیے سترہ رکھنا ضروری ہے چاہے آدمی بڑٰی مسجد میں ہو یا کسی چھوٹی مسجد میں نماز ادا کر رہا ہو۔ابن ھانی نے مسائل احمد بن حنبلؒ 1/66 میں بیان کیا ہے کہ ایک دن مجھےامام احمدؒ نے جامع مسجد میں بغیر سترے کے نماز ادا کرتے دیکھا تو سترہ رکھنے کا حکم دیا چنانچہ میں نے ایک شخص کو اپنا سترہ بنایا۔ جن شہروں میں مجھے جانے کا اتفاق ہوا ہے وہاں میں نے ائمہ مساجد اور نمازیوں کو دیکھا ہے کہ وہ سترے کا خیال نہیں رکھتے۔ مملکت سعودی عرب میں بھی یہی حال ہے۔ مجھے پہلی بار رجب 1410 میں وہاں جانے کا اتفاق ہوا اور میں نے وہاں یہی صورتحال دیکھی۔ علماء کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو سترے کی اہمیت سے آگاہ کریں اور انہیں اس سنت کے احیاء کی ترغیب دلائیں۔سترہ رکھنے کا حکم دیگر مساجد کی طرح حرمین شریفین میں نماز پڑھنے والوں کے لیے بھی ہے۔
نمازی اور سترے کے درمیان سے گزرنے والے کو روکنا:
نمازی اورسترے کے درمیان سے گزرنے والے کو سختی کےساتھ روکنا چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنے اور سترے کے درمیان کسی چیز کو نہیں گزرنے دیتے تھے۔  نا سمجھ بچے یا جانور وغیرہ کو روکنے کے لیے نماز میں چند قدم آگے بڑھنے کی بھی اجازت ہے۔   ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے کہ ایک بکری دوڑتی ہوئی آئی اور سامنے سے گزرنے کی کوشش کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جلدی فرمائی اور (سترے والی) دیوار کے قریب ہو گئے (تاکہ بکری کے گزرنے کا راستہ نہ رہے) یہاں تک کہ اپنا بطن مبارک دیوار سے لگا دیا10۔ اس پر بکری کو ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے سے گزرنا پڑا۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرض نماز پڑھائی تو نماز میں اپنا ہاتھ آگے کر کے پھر پیچھے کر لیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ نے عرض کیا “اے اللہ کے رسول! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے”؟ فرمایا:
لاَ إِلاَّ أَنَّ الشَّيْطَانَ أَرَادَ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَىَّ فَخَنَقْتُهُ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ لِسَانِهِ عَلَى يَدِى وَايْمُ اللَّهِ لَوْلاَ مَا سَبَقَنِى إِلَيْهِ أَخِى سُلَيْمَانُ لاَرْتُبِطَ إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِى الْمَسْجِدِ حَتَّى يُطِيفَ بِهِ وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ(فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ لَا يَحُولَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ أَحَدٌ فَلْيَفْعَلْ)
(سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی اعتراض الشیطان للمصلی لیفسد علیہ الصلاۃ، اسے امام احمد، اور طبرانی نے بھی صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)
“نہیں، بلکہ (بات یہ ہے کہ) شیطان میرےسامنے سے گزرنا چاہتا تھا تو میں اس کا گلا گھونٹ دیا، یہاں تک کہ میں نے اس کی زبان کی ٹھنڈک اپنے ہاتھ پر محسوس کی۔اللہ کی قسم! اگر میرے بھائی سلیمان (علیہ السلام) نے (جنات کو ماتحت رکھنے میں) سبقت نہ کی ہوتی تو اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیا جاتا اور اہل مدینہ کے بچے اسے بازاروں میں پھراتے11۔ پس تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو کہ اس کے اور قبلے (کی سمت میں اس کے آگے) سے کوئی چیز نہ گزرے تو اسے ضرور ایسا کرنا چاہیے12
دوسری حدیث میں یہی حکم اس طرح ہے کہ:
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنْ النَّاسِ فَأَرَادَ أَحَدٌ أَنْ  يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلْيَدْفَعْ فِي نَحْرِهِ ( وليدرأ ما استطاع)  ( وفي رواية : فليمنعه مرتين ) فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ     ( صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب منع المار بین یدی المصلی )
“جب تم میں سے کوئی (شخص) لوگوں (کے گزرنے) سے (بچنے) کے لیے سترہ رکھ کر نماز پڑھے پھر اس کے (اور سترے کے درمیان) سامنے سے کوئی گزرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ اس کی گردن سے پکڑ کر اسے پیچھے دھکیل دےاور پوری قوت سے اسے ہٹائے۔( ایک رویت میں ہے کہ دوبار اس کو ہاتھ سے روکے) اگر وہ نہ رکے تو اس سے جھگڑا کرے کیونکہ وہ شیطان ہے”
نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ (صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب اثم المار بین یدی المصلی )
“اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر (کتنا گناہ) ہے و وہ چالیس (سال) کھڑا رہنے کو آگے سے گزرنے سے بہتر سمجھے”
سترے کی غیرموجودگی میں نماز توڑنے والی چیزیں:
اگر کوئی شخص سترہ رکھے بغیر نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے سامنے سے بالغ عورت، گدھا یا سیاہ کتا گزر جائے تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ البتہ بیوی سامنے لیٹی ہو تو اسے سترہ بنا کر نماز پڑھنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ گویا نماز ٹوٹنے کا تعلق گزرنے سے ہے لیٹنے سے نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
يَقْطَعُ الصَّلَاةَ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْ الرَّجُلِ مِثْلُ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ قَالَ قُلْتُ مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنْ الْأَحْمَرِ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي فَقَالَ الْكلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ (مسلم و ابو داؤد)
“اگر نمازی کے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر اونچا سترہ نہ ہو تو (بالغ) عورت، گدھے اور سیاہ کتے کے سامنے سے گزر جانے پر اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے سیاہ کتے کو خاص کرنے کی وجہ پوچھی  تو فرمایا “سیاہ کتا شیطان ہوتا ہے”
اس حدیث میں  نماز ٹوٹنے سے مراد نماز باطل ہونا ہے یعنی اس کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔ اس بارے میں جو حدیث بیان کی جاتی ہے کہ “کوئی چیز نماز نہیں توڑتی”  وہ ضعیف ہے۔ میں نے اس پر اپنی تحقیق “تمام المنۃ” ص 306 پر بیان کی ہے۔
 امام نے اپنے آگے سترہ رکھا ہو تو وہ مقتدیوں کو الگ سے سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے لیے امام کا سترہ ہی کافی ہے، یعنی ایسی صورت میں مقتدیوں کے سامنے سےگزرنے پر ان کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔(اصل صفۃ صلاۃ ص 135)
قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت:
قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے خواہ وہ انبیاء علیہم السلام میں سے کسی کی قبر ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ذی شان ہے:
لَا تُصَلُّوا إِلَى الْقُبُورِ وَلَا تَجْلِسُوا عَلَيْهَا (مسلم و ابوداؤد، و ابن خزیمہ (1/95/ 2)
“قبروں کی طرف منہ کر کے نمازمت ادا کرو اور نہ ان پر بیٹھو”
تفصیل کے طالب میری کتاب “تحذیر الساجد من اتخاذ القبور المساجد” اور “ احکام الجنائز و بدعھا” دیکھیں۔


1                 ۔صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ بین السواری فی غیر جماعۃ۔ صحیح سنن نسائی حدیث 749، ابن سعد (1/253)، و ھو مخرج فی “الارواء” (543)
2                 ۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب قدر کم ینبغی ان یکون بین المصلی و السترۃ، و  رواہ مسلم ایضًا
3                 ۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی الاسطوانۃ، مسلم، بیہقی، احمد۔
4                 ۔ صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الصلاۃ الی الحربۃ یوم العید، مسلم، ابن ماجہ
5                 ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب سترۃ المصلی، احمد
6                 ۔ صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 348۔ سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی الصلاۃ فی مرانض الغنم و اعطان الابل
7                 ۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی الراحلۃ و البعیر و الشجر و الرحل، مسلم  و ابن خزیمہ (92/2) و احمد
8                 ۔ مسند احمد مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ و من مسند علی ابن ابی طالب
9                 ۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی السریر
1             0                 ۔ صحیح ابن خزیمہ جلد دوم ص 20 مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت (باب بَابُ النَّهْيِ عَنِ الصَّلاَةِ إِلَى غَيْرِ سُتْرَةٍ.)
1             1                 ۔۔اس معنی کی احادیث صحیحین میں متعدد صحابہ سے بیان ہوئی ہے۔ یہ ان کثیر احادیث میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے قادیانیوں کو کافر قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ جنوں کے وجود پر ایمان نہیں رکھتے حالانکہ ان کا وجود قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں جہاں جنوں کا ذکر ہے مثلا "قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن" وغیرہ تو اس کی معنوی تحریف کرتے ہوتے وہ کہتے ہیں کہ یہاں "جن" سے مراد  انسان ہی ہیں نہ کہ کوئی دوسری مخلوق اور یہ کہ "جن" اور "انس" مترادف اور ہم معنی لفظ ہیں، اس طرح کی حرکات کی وجہ سے وہ لغت اور شرع دونوں کی حدود سے نکل جاتے ہیں۔ اور اگر جنوں کو وجود سنت سے ثابت کیا جائے تووہ اسے بھی اپنی باطل تاویلوں اور معنوی تحریف کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں ، جہاں یہ ممکن نہ ہو تو اس حدیث کو تسلیم کرنے ہی سے انکاری ہو جاتے ہیں چاہے وہ متواتر ہی کیوں نہ ہو اور چاہے ائمہ حدیث اور امت اس کے صحیح ہونے پر متفق ہی ہوں۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔
1             2                 ۔ مسند احمد کی  روایت میں اس آخری جملے کا اضافہ ہے۔ دیکھیے  مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ

قبلے کے مسائل

 قبلہ رخ ہونے کے مسائل
قبلہ کی طرف منہ کرنے کی فرضیت:
قبلہ رخ ہونا نماز کی شرط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرض اور نفل دونوں قسم کی نمازوں میں  اپنا رخ کعبے کی جانب فرمایا کرتے تھے۔ ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے  رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس کا حکم بھی ارشاد فرمایا:
إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ فَكَبِّر [1]
“جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو( اچھے انداز سے) مکمل وضو کر، پھر قبلے کی طرف منہ کر اور تکبیر (تحریمہ) کہہ”
سواری پر نفل نماز میں استقبال قبلہ ضروری نہیں:
البتہ سفر میں قبلہ رخ ہوئے بغیر بھی سواری پر  بیٹھے بیٹھے نفل یا وتر کی نماز ادا کرلینا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دورانِ سفرسواری پر بیٹھ کرنفل اور وتر پڑھ لیا کرتے تھے خواہ اس کا رخ مشرق و مغرب یا کسی بھی طرف ہوتا۔[2]
قرآن کی یہ آیت اسی بارے میں اتری ہے۔[3]
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ (سورۃ البقرۃ آیت 115)
“تو تم جدھر بھی رخ کرو، ادھر اللہ کا چہرہ ہے”۔
البتہ اگر سواری کو قبلہ رخ کرنا ممکن ہو تو نماز شروع کرنے سے پہلے کعبے کی طرف منہ کر لینا افضل ہے۔( اس لیے کہ) کبھی کبھار  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز کے آٖغاز میں “اللہ اکبر” کہتے وقت اونٹنی سمیت قبلہ رخ ہو جاتے، اس کے بعداپنی نماز جاری رکھتے خواہ سواری کا رخ کسی بھی طرف پھر جاتا۔[4] سواری پر نفل ادا کرتے وقت سر کے اشارے سے رکوع و سجود ادا فرماتے اور  سجدے کے لیے سر کو رکوع کی نسبت زیادہ جھکا لیتے تھے[5]۔ جمہور علماء کے نزدیک ہر قسم کے سفر میں سواری پر نفلی نماز پڑھنا جائز ہے خواہ وہ سفر اتنا تھوڑا ہی ہو کہ اس میں فرض نماز قصر نہ کی جا سکے۔
فرض نماز سواری پر جائز نہیں:
 شرعی عذر کےبغیر سواری پر بیٹھ کر فرض نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  فرض نماز کی ادائیگی کے لیےسواری سے نیچے اتر آتے اور قبلہ رخ ہو کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔[6]
البتہ ٹرین یا ہوائی جہاز میں سفر کے دوران اگر نیچے اترنا ممکن نہ ہو اور نماز کا وقت نکل جانے کا ڈر پیدا ہو جائے تو وہیں نماز ادا کر لینی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔
شدیدخوف کی حالت میں نماز کیسے ادا کی جائے:
 اگر دشمن کی کثرت یا  شدید خوف وغیرہ کی وجہ سے جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھی جا سکے تو جیسے بھی ممکن ہو نماز ادا کر لینی چاہیے، ایسے حالات میں سواری سے اترنے اور قبلہ رخ ہونے وغیرہ کی کچھ پابندی نہیں، فرض نماز خواہ سواریوں پر بیٹھے ادا کی جائے یا پیدل چلتے ہوئےپڑھی جائے اور رخ قبلہ کی جانب رہے یا نہ رہے بہرحال نماز ادا ہو جائے گی۔بلکہ  سخت لڑائی  میں تو سر کے اشارے سے بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے[7]فرمایا:
إذا اختلطوا فانما هو التكبير والاشارة بالرأس[8]
جب (فوجیں) گتھم گتھا ہو جائیں تو پھر بس تکبیر اور سرسے اشارہ (ہی نماز ادا کرنے کے لیے کافی) ہے”
قبلہ کی حدود
جو شخص خانہ کعبہ کے سامنے ہو،اس کے لیے ضروری ہے کہ نماز ادا کرنے کے لیے کعبہ کی سیدھ میں کھڑا ہو۔ لیکن جس کی نگاہوں سے بیت اللہ اوجھل ہووہ کعبہ والی سمت میں نماز پڑھ لے تو بھی کافی ہے، یعنی اس کے لیے کعبے کی بالکل سیدھ میں کھڑا ہونا لازم نہیں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے مشرق اور مغرب کے درمیان تمام سمت کو قبلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ [9]
“مشرق اور مغرب کے درمیان تمام سمت قبلہ ہے”
قبلہ کی سمت معلوم کرنے میں غلطی ہونا
 قبلے کی سمت معلوم کرنے کی ہر ممکن کوشش کے بعد آدمی غلط سمت میں نماز ادا کر لے تو  اس کی نماز درست ہے اور اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی رفاقت میں تھے۔آسمان پر بادل چھا گیا تو قبلہ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہو گیا۔ ہم نے درست سمت معلوم کرنے کی پوری کوشش کے بعدالگ الگ سمت میں نماز ادا کر لی اور اپنی اپنی  سمت کو نشان زدہ کر دیا تا کہ صبح ہمیں معلوم ہو کہ کیا ہم نے قبلہ رخ نماز پڑھی ہے یا نہیں۔ صبح ہونے پر معلوم ہوا کہ ہم نے قبلہ کی سمت نماز ادا نہیں کی۔ ہم نے تمام واقعہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔انہوں نے ہمیں نمازلوٹانے کا حُکم نہیں دیا اور  فرمایا:
قد أجزأت صلاتكم
“ تمہاری نماز ہو گئی”[10]
قبلے کی مختصر تاریخ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شروع میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل فرمائی:
 قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام(سورۃ البقرۃ آیت 144)
“(اے محمد) ہم تمہارا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔ سو ہم تم کو اسی قبلہ کی طرف جس کو تم پسند کرتے ہو منہ کرنے کا حکم دیں گے۔ تو اپنا منہ مسجد حرام (بیت اللہ) کی طرف پھیر لو”
اس آیت کے نزول کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز میں اپنا چہرہ مبارک خانہ کعبہ کی جانب کیا کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کچھ لوگ قباء کے مقام میں صبح کی نماز ادا کر رہے تھے۔ اچانک ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی جانب سے ایک پیغام لانے والا آیا جس نے اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر آج رات قرآن پاک کی آیت نازل ہوئی ہے جس میں کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خبردار، تم بھی اپنا رخ اسی طرف کر لو۔ چنانچہ پہلے ان کا رخ شام کی جانب تھا، اس کے کہنے پر تمام نمازی گھوم کر قبلہ رخ ہو گئے اور امام بھی گھوم کر سامنے کی طرف آ گیا اور کعبے کی طرف رخ کر لیا۔[11]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غلط سمت میں نماز پڑھتے ہوئے شخص کو نماز کے دوران ہی صحیح سمت کی خبر دی جا سکتی ہے اور اگر کسی کو دوران نماز پتہ چل جائے کہ وہ غلط سمت میں نماز پڑھ رہا ہے تو اسے چاہیے کہ اسی وقت اپنا رخ صحیح سمت میں کر لے۔


[1]     صحیح بخاری کتاب الاستئذان باب من رد فقال علیک السلام، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ  و انہ اذا لم یحسن الفاتحۃ
[2]     صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الوتر فی السفر، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت
[3]     صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت
[4]     سنن ابی داؤدکتاب الصلاۃ باب التطوع علی الراحلۃ و الوتر، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1225
[5]     سنن  ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی الصلاۃ علی  الدابۃ فی الطین و المطر،  تفصیل کے لیے دیکھیے صفۃ صلاۃ النبی الکتاب الام ص 58
[6]     صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب التوجہ نحو القبلۃ  حیث کان
[7]     صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب قولہ عز و جل فان خفتم فرجالا ا و رکبانا فاذا امنتم فاذکروا اللہ
[8]     سنن البیہقی جلد 3 ص 255
[9]     سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء ان ما بین المشرق و المغرب قبلۃ ، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 342
[10]  سنن دار قطنی کتاب الصلاۃ باب الاجتھاد فی القبلۃ و جواز التحری فی ذلک، ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل للالبانی حدیث نمبر 291
[11]  صحیح البخاری کتاب الصلاۃ