Saturday, October 30, 2010

قومے کے مسائل

جب آپ رکوع میں تسبیحات اور اذکار وغیرہ پڑھنے سے فارغ ہو جائیں تو سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے ہوئے اطمینان کے ساتھ اٹھیں اور انگلیوں کو فطری انداز میں کھلا رکھتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کانوں یا کندھوں تک بلند کریں[1]۔ پھر ہاتھوں کو باندھے بغیر سیدھے کھڑے ہو جائیں اور رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ یا کوئی دوسرا مسنون ذکر پڑھیں جن کا ذکر آگے آ رہا ہے۔رکوع کے بعد سیدھے کھڑے ہونا نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ اسے قومہ کہا جاتا ہے جبکہ رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ کو تحمید کہتے ہیں۔
سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اور رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ  کہنے  کی فضیلت اورمسائل:
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ  اور  رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ کہنے کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ يَسْمَعُ اللَّهُ لَكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب التشھد، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر ۹۷۲)
ٍ " جب(امام) سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے تو (اس کے بعد)تم سب (مقتدی) اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہا کرو، اللہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی زبانی کہہ چکا ہے کہ جس نے اللہ کے حمد بیان کی، اللہ نے اس کی سن لی"
ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ اس بارے میں یہ فرمان رسول بیان کرتے ہیں:
إِذَا قَالَ الْإِمَامُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب التسمیع و التحمید و التأمین)
" جب امام سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے تو تم(اس کے بعد) اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہا کرو کیونکہ (فرشتے بھی اس وقت یہی کہتے ہیں پس) جس کا قول فرشتوں کے قول سے مل گیا اس کے پچھلے(صغیرہ) گناہ معاف کر دیے گئے"
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امام کے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہنے سے پہلے فرشتے تحمید نہیں کہتے اس لیے تم بھی ایسا نہ  کرو بلکہ امام سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہہ لے تو اس کے بعدتحمید کہو۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امام صرف سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اور مقتدی صرف  رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ کہے بلکہ امام اور مقتدی دونوں کو یہ کلمات کہنے چاہئیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنی نماز میں ان دونوں کو کہا کرتے تھے[2]  اور صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي[3] (اس طرح نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو) کے عمومی حکم کے پیش نظر امام، مقتدی اور اکیلے نماز پڑھنے والے غرض ہر نمازی کو اس سنت پر عمل کرنا چاہیے۔ امام شافعی، امام احمد اور حنفیہ میں امام محمد، ابویوسف اور امام طحاوی نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔
قومے کی کم سے کم مقدار:
قومے سے متعلق دوسرا انتہائی اہم مسئلہ اسے اطمینان اور سکون سے ادا کرنے کا ہے جس کی کم سے کم مقدار یہ ہے کہ نمازی اتنی دیر تک کھڑا رہے کہ کمر کے تمام مہرے اور ہڈیاں اپنی اپنی جگہ پر واپس آ کر ٹھہر جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے:
فَإِذَا رَفَعْتَ رَأْسَكَ فَأَقِمْ صُلْبَكَ حَتَّى تَرْجِعَ الْعِظَامُ إِلَى مَفَاصِلِهَا
(مسند احمد مسند الکوفیین حدیث رفاعۃ بن رافع رضی اللہ عنہ۔ صحیح و ضعیف الجامع الصغیر حدیث نمبر ۳۲۴)
"جب تو (رکوع سے )اپنا سر اٹھائے تو اپنی کمر  سیدھی کر، یہاں تک کہ(کمر کی ہڈیاں) اپنے اپنے جوڑوں پر واپس ہو جائیں"
نماز کی درستگی کے لیے یہ کم سے کم تقاضا ہے جسے پورا  نہ کرنے والے شخص کی نماز نامکمل رہتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ہے:
إِنَّهُ لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ مِنْ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ثُمَّ يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا
(سنن ابی داؤد  کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود۔  صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر ۸۵۷)
" لوگوں میں کسی کی بھی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ وضو نہ کرلے ۔ ۔ ۔ ۔(اورتبھی مکمل ہوتی ہے جب وہ رکوع کے بعد) سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے یہاں تک کہ بالکل سیدھا کھڑا ہو جائے"
اوراس نامکمل نماز کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا وقعت ہوتی ہے اس کا ذکر ایک دوسرے فرمان رسول میں ملتا ہے:
لَا يَنْظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى صَلَاةِ عَبْدٍ لَا يُقِيمُ فِيهَا صُلْبَهُ بَيْنَ رُكُوعِهَا وَسُجُودِهَا
(مسند احمد مسند المدنیین حدیث طلق بن علی، السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر ۲۵۳۶)
"اللہ عز و جل اس شخص کی نماز کی طرف دیکھتا بھی نہیں ہے جو رکوع اور سجدے کے درمیان اپنی کمر  سیدھی نہیں کرتا"
جس نماز کی طرف دیکھنا بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پسند نہ ہو اس کی قبولیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے نمازیوں کو اس رکن کی ادائیگی میں جلدی کرنے سے بچنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ ان کی ساری محنت برباد ہو جائے اور وہ اللہ عز و جل کی ناراضی کے مستحق بن جائیں۔
سنت مطہرہ سے ایک جھلک
قومے میں اطمینان اور سکون اختیار کرنے کے بارے میں صرف زبانی حکم ہی نہیں ملتے بلکہ سنت مطہرہ میں اس کی عملی صورت بھی امت کے سامنے رکھ دی گئی ہے۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ نماز نبوی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جتنی دیر رکوع فرماتے تھے قریبًا اتنی ہی دیر رکوع کے بعد کھڑے رہتے اور اتنی ہی دیر دو سجدوں کے درمیان بیٹھتے تھے[4] اور بعض دفعہ تو رکوع کے بعد اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ دیکھنے والا گمان کرتا کہ آپ سجدہ کرنا بھول گئے ہیں[5]۔ ایک مرتبہ رات کو تہجد کی نماز میں رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد اتنی دیر تک لِرَبِّيَ الْحَمْدُ  کی تکرار کرتے رہے جتنی دیر میں سورۃ البقرۃ پڑھی جا سکتی ہے[6]۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس طرح کی طوالت انفرادی نمازوں میں ہونی چاہیے۔ اگر کوئی شخص امامت کروا رہا ہو تو اسے ہلکی نماز پڑھانے کا حکم ہے جس کی تفصیل اس کتاب میں پیچھے گزر چکی ہے۔


[1] ۔ اس کی تفصیل پیچھے ـمسئلہ رفع الیدین ـ کے تحت گزر چکی ہے۔
[2] ۔ مثلا یہ بات صحیح البخاری کتاب الاذان باب الی این یرفع یدیہ میں بیان ہوئی ہے۔
[3] ۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب الأذان للمسافر اذا کانوا جماعۃ و الاقامۃ و کذلک بعرفۃ
[4] ۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب الطمأنینۃ حین یرفع رأسہ من الرکوع
[5] ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الطمأنینۃ حین یرفع رأسہ من الرکوع
[6] ۔سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ۔ صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر ۸۷۴

Sunday, April 18, 2010

نماز ظہر و عصر میں قراءت کیسے کی جائے



ظہر اور عصر کی نمازوں میں آہستہ آواز سے یعنی سری قراءت کرنی چاہیے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں دعائے استفتاح (سبحانک اللھم و بحمدک ۔  ۔۔)، تعوذ اور بسملہ کے بعد آہستہ آواز میں سورۃ الفاتحہ پڑھی جائے، پھر قرآن مجید کی کوئی سی دوسری سورت ملائی جائے اور اسے بھی آہستہ آواز ہی میں پڑھا جائے۔ دوسری رکعت پہلی رکعت کے مثل ہے یعنی اس میں تعوذ، بسملہ، فاتحہ اور ملائی جانے والی سورت پڑھی جائے گی فرق صرف یہ ہے کہ اس میں دعائے استفتاح نہیں پڑھی جاتی[1]۔تیسری اور چوتھی رکعت کا آغاز تعوذ اور بسملہ سے کرنے کے بعدنمازی کو اختیار ہے چاہے تو سورت الفاتحہ کے فورًا بعد رکوع میں چلا جائے[2]  اور چاہے تو اس کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھ کر رکوع کر لے لیکن اگر وہ سورت ملانا چاہے تو اس کا سنت طریقہ یہ ہے کہ آخری دو رکعتوں کو پہلی دونوں رکعتوں کی نسبت مختصر پڑھا جائے، یعنی اگر پہلی رکعتوں میں تیس آیات کے بقدر تلاوت کی ہے تو آخری دونوں میں پندرہ آیات کے قریب کی جائے[3]۔ واضح رہے کہ آیات کو اس مقدار کے مطابق پڑھے جانے کو اتباع سنت کے جذبے سے دیکھا جانا چاہیے ورنہ قرآن مجید میں سے جو بھی اور جس قدر بھی آسان لگے اس کی تلاوت کی جا سکتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ظہر و عصر میں عمومًا سری قراءت فرماتے تھے لیکن کبھی کبھار بیچ میں کوئی آیت بلند آواز سے بھی پڑھ دیا کرتے تھے جس سے سننے والوں کو معلوم ہو جاتا کہ آپ کون سی سورت پڑھ رہے ہیں[4] نیز قراءت کرتے ہوئے آپ  کی ریش مبارک ہلا کرتی تھی جس سے دیکھنے والے جان لیتے تھے کہ آپ قراءت فرما رہے ہیں [5]۔
ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ظہر کی نماز میں بعض دفعہ اتنا لمبا قیام فرمایا کرتے تھے کہ نماز شروع ہونے کے بعد کوئی شخص بقیع میں جا کر اپنی ضرورت پوری کر کےگھر میں آتا، پھر وضو کرنے کے بعد مسجد میں پہنچتا تو ابھی پہلی رکعت جاری ہوتی تھی [6]۔ نماز کو لمبا کرنے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ نمازی پہلی رکعت جماعت کے ساتھ پا لیں [7]۔ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کے اندازے کے مطابق ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں قیام کی مقدار اتنی ہوتی تھی جس میں تیس آیات بشمول سورۃ الفاتحہ بقدر سورۃ السجدہ پڑھی جا سکیں اورآخری دونوں رکعتوں میں اس سے نصف یعنی پندرہ آیات پڑھنے کے بقدر قیام فرماتے تھے۔جبکہ عصر کی نماز ظہر سے مختصر ہوتی تھی جس کی پہلی دو رکعتوں میں پندرہ آیات اور آخری دو رکعتوں میں اس سے نصف کے بقدر قیام ہوتا تھا [8]۔
دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے درج ذیل سورتیں بھی ظہر یا عصر کی نماز میں پڑھی ہیں:
1۔ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى (سورت نمبر 87 کل آیات 17) اور هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الغَاشِيَةِ (سورت نمبر 88 کل آیات 26) [9]
2۔ السَّمَاءِ ذَاتِ البُرُوجِ (سورت نمبر 85 کل آیات 22) اور  وا لسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ (سورت نمبر 86 کل آیات 17) [10]
3۔ و اللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى (سورت نمبر 92 کل آیات 21) [11]،  إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ (سورت نمبر 84 کل آیات 25) [12]   اور ان جیسی دوسری سورتیں
سری نمازوں کی ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنی لازم ہے[13]  اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک صحابی کو نماز کی پہلی رکعت پڑھنے کا طریقہ سکھاتے ہوئےاس میں قرآن (یعنی فاتحہ) پڑھنے کا حکم دیا اور پھر فرمایا:
ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا [14]
"پھر اپنی (باقی کی) تمام نماز میں بھی ایسا ہی کر"
دوسری روایت میں ہے:
ثُمَّ اصْنَعْ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ [15]
 "پھر ہر رکعت میں ایسا ہی کر"
چنانچہ جن لوگوں نے آخری دو رکعت میں خاموش کھڑے رہنے یا تسبیح و تہلیل کو کافی قرار دیا ہے ان کی بات درست نہیں ہے۔





[1] ۔ صحیح بخاری کتاب الاذان باب یقرأ فی الأخریین بفاتحۃ الکتاب
[2] ۔ صحیح بخاری کتاب الاذان باب یقرأ فی الأخریین بفاتحۃ الکتاب
[3] ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الظھر و العصر
[4] ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب اذا أسمع الامام الآیۃ
[5] ۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب من خافت القراءۃ فی الظھر و العصر
[6] ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الظھر و العصر
[7] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی القراءۃ فی الظھر، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 800
[8]۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الظھر و العصر
[9] ۔ صحیح ابن خزیمہ جلد اول ص 257۔ مطبوع المکتب الاسلامی بیروت  حدیث نمبر 512
[10] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب قدر القراءۃ فی صلاۃ الظھر و العصر، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 805
[11] ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الصبح
[12] ۔ صحیح ابن خزیمہ جلد اول ص 257۔ مطبوع المکتب الاسلامی بیروت  حدیث نمبر 511
[13] ۔ سورت فاتحہ پڑھنے کے مسئلے کا بیان پیچھے گزر چکا ہے۔
[14] ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب امر النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم الذی لایتم رکوعہ
[15] ۔ مسند احمد مسند الکوفیین حدیث رفاعۃ بن رافع الزرقی رضی اللہ عنہ

Wednesday, February 10, 2010

قراءت سے متعلق کچھ مزید سنتوں کا بیان


ہم معنی سورتوں کو اکٹھا پڑھنا
سنت مطہرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کبھی کبھارنماز میں ان سورتوں کو ایک ہی رکعت میں پڑھا کرتے تھے جو معانی اور ٕمضمون میں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے "مفصل" سورتوں میں سے درج ذیل دو دو سورتیں ایک ہی رکعت میں پڑھیں۔ سورۃ ق یا اس سے اگلی سورۃ الحجرات سے لے کر سورۃ الناس تک کی سورتیں "مفصل" کہلاتی ہیں۔
{ الرَّحْمَن } (55 : 78 ) اور { النَّجْم } (53 : 62)
{ اقْتَرَبَتِ } (54 : 55) اور { الحَاقَّة } (69 : 52)
{ الطُّور } (52 : 49) اور { الذَّارِيَات } (51: 60)
{ إِذَا وَقَعَتِ } (56 : 96) اور { ن } (68 : 52)
{ سَأَلَ سَائِلٌ } (70 : 44) اور { النَّازِعَات } (79 : 46)
{ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ } (83 : 36) اور { عَبَسَ } (80 : 42)
{ المُدَّثِّر } (74 : 56) اور { المُزَّمِّل } (73 : 20)
{ هَلْ أَتَى } (76 : 31) اور { لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ القِيَامَةِ } (75 : 40)
{ عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ } (78 : 40) اور { المُرْسَلَات } (77 : 50)
{ الدُّخَان } (44 : 59) اور { إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ } (81 : 29)
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب ترتیل القراءۃ و اجتناب الھذ ، سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب تخریب القرآن، صحیح سنن ابی داؤدحدیث نمبر 1262)
ترتیب مصحف کا خیال رکھنا افضل ہے، ضروری نہیں:
اس فہرست میں سورت کے نام کے بعد دائیں جانب سورت نمبر اور بائیں جانب اس سورت میں آیات کی تعداد لکھی گئی ہے جس پر غور کرنے سے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےانہیں مصحف میں موجود ترتیب کے مطابق نہیں پڑھا جس سے ترتیب کے خلاف پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے، لیکن ترتیب کا خیال رکھنا افضل اور بہتر ہے۔ اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جس میں ذکر ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے تہجد پڑھتے ہوئے سورۃ البقرۃ، سورۃ النساء اور سورۃ آل عمران کو اسی ترتیب سے ایک ہی رکعت میں پڑھا تھا، یعنی سورۃ آل عمران کو سورۃ النساء کے بعد پڑھا جبکہ مصحف میں وہ سورۃ النساء سےپہلے آتی ہے ۔
لمبے قیام کی فضیلت
نماز میں لمبا قیام کرنا اور قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ قراءت کرنا افضل ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےفرمایا:
أَفْضَلُ الصَّلَاةِ طُولُ الْقِيَامِ
(شرح معانی الآثار کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی رکعتی الفجر، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب افضل الصلاۃ طول القنوت)
"افضل نماز وہ ہے جس میں لمبا قیام کیا جائے"
آیات کا جواب دینا
نماز میں کچھ آیات کا جواب دینا بھی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ مثلا:
جب سورۃ القیامۃ کی آخری آیت پڑھی جائے کہ أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ المَوْتَى (تو کیا وہ (اللہ) اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کرے؟" تو اس کے جواب میں کہا جائے " سبحانك فَبَلى
(السنن الکبرٰی للبیہقی، صحیح سنن ابن داؤد حدیث نمبر 827)
سورۃ الاعلی میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى کے جواب میں سبحان ربي الأعلى پڑھنا چاہیے۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الدعاء فی الصلاۃ، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر826)
اس حدیث کے الفاظ مطلق ہیں جب بھی یہ آیات پڑھی جائیں تو ان کا جواب دینا چاہیے چاہے انہیں نماز میں پڑھا جائے یا نماز سے باہر، اور نماز خواہ نفلی ہو یا فرض۔ابن ابی شیبہ نے ابو موسٰی اشعری اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہےکہ وہ دونوں جب فرض نماز میں ان کی تلاوت کرتے تو جواب میں یہ کلمات کہتےتھے اور عمر رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ سے مطلقًا منقول ہے۔

Wednesday, February 3, 2010

دعائے استفتاح کا بیاں


تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد جب نمازی ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جائے تو دعائے استفتاح پڑھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اس موقع پر مختلف دعائیں پڑھتے اور اللہ سبحانہ و تعالٰی کی حمد، پاکیزگی اور تعریف بیان فرماتے۔ دعائے استفتاح پڑھناضروری ہے کیونکہ نماز ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو نماز کا درست طریقہ سکھاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس کا حکم دیا تھا اور فرمایا تھا:
لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ مِنْ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ فَيَضَعَ الْوُضُوءَ يَعْنِي مَوَاضِعَهُ ثُمَّ يُكَبِّرُ وَيَحْمَدُ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ وَيُثْنِي عَلَيْهِ وَيَقْرَأُ بِمَا تَيَسَّرَ مِنْ الْقُرْآنِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 857)
"لوگوں میں سے کسی کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ اچھی طرح وضو کر کے تکبیر تحریمہ نہ کہے اور جب تک اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اوربڑائی بیان نہ کرے اور جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتا ہے وہ نہ پڑھ لے"

درج ذیل دعاؤں میں سے کوئی بھی دعااس موقع پر پڑھی جا سکتی ہے۔ ان میں سے بعض دعاؤں کو نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نفل نمازوں میں پڑھا کرتے تھے۔انہیں فرض نماز میں پڑھنا بھی اگرچہ جائز ہے لیکن امام کو جماعت کرواتے وقت لمبی دعائیں پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے تا کہ مقتدیوں پر مشقت نہ ہو۔

پہلی دعا:
أَللّٰهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَّ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ أَللّٰهُمَّ نَقِّنِيْ مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ أَللّٰهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب ما یقول بعد التکبیر، صحیح مسلم کتاب المساجد باب ما یقال بین تکبیرۃ الاحرام و القراءۃ، صحیح سنن نسائی حدیث نمبر1039، ارواء الغلیل حدیث8۔ متن میں مذکور الفاظ سنن نسائی کے ہیں)
"اے اللہ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان دوری ڈال دے جیسے تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری رکھی ہے۔ اے اللہ! مجھے خطاؤں سے اس طرح پاک کر دے جیسے سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے ۔ اے اللہ! میری خطائیں (اپنی مغفرت کے )پانی، برف اور اولوں سے دھو ڈال"۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اس دعا کو فرض نمازوں میں پڑھا کرتے تھے۔

دوسری دعا:
وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وََّمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ ۔ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۔ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ۔ اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْت ۔ سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ ۔ أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ ۔ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ ۔ وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ ۔ وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ ۔ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ ۔ ۔وَالْمَهْدِيُّ مَنْ هَدَيْتَ ۔ أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ ۔ لَا مَنْجَا وَلَا مَلْجَأ مَنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ ۔ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ ۔ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب الدعاء فی صلاۃ اللیل و قیامہ، مسند احمد، صحیح ابن حبان، مستخرج ابی عوانۃ، السنن الکبرٰی للنسائی۔ یہاں تمام روایات کے الفاظ جمع کرکے بیان کیے گئے ہیں)
"میں نے یکسو اور فرمانبردار ہو کر اپنا چہرہ اس ذات کی طرف کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والوں میں سے ہوں۔ اللہ! تو بادشاہ ہے تیرے سوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں۔ تو پاک اور حمد کے لائق ہے۔ تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں (یعنی تیرے سوا میں کسی کی عبادت نہیں کرتا)۔ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں، تو میرے سارے گناہ معاف فرما دے۔تیرے سوا کوئی نہیں جو گناہوں کو معاف کر سکے۔ مجھے اچھے اخلاق کی توفیق عطا فرما، تیرے سوا کوئی بھی اس کی توفیق نہیں دے سکتا۔اور مجھ سے برے اخلاق کو دور رکھ، تیرے سوا ان کو دور رکھنے والا بھی کوئی نہیں۔اللہ! میں (تیرے دربار میں) حاضر ہوں تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں ۔ اور شرکی نسبت تیری طرف نہیں کی جا سکتی ۔ جسے تو ہدایت عطا فرما دے حقیقت میں وہی ہدایت یافتہ ہے۔ میں تیرے ساتھ ہوں اور تیری طرف ہی میرا لوٹنا ہے۔ تجھ سے بھاگ کر نجات پانے اور پناہ ڈھونڈنے کی کوئی جگہ سوائے تیرے ہی پاس ہونے کے کہیں اور کوئی نہیں ہے۔ تیری ذات بابرکت اور بلند و بالا ہے۔ میں تجھ سے مغفرت کا طلب گار ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں"

تیسری دعا:
سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرَكَ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من رأی الاستفتاح بسبحانک اللھم و بحمدک حدیث عائشۃ رضی اللہ عنہا، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 776)
"اے اللہ! تو پاک ہے،( ہم )تیری حمد کے ساتھ (تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں)۔ تیرا نام بڑی برکت والا ہے اور تیری بزرگی بلند ہے۔ اور تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
إن أحب الكلام إلى الله أن يقول العبد سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 2598۔ سنن النسائی)
"اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ترین کلام یہ ہے کہ بندہ کہے سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك

چوتھی دعا:
سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرَكَ ۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ۔ اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا ۔ اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا ۔ اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من رأی الاستفتاح بسبحانک اللھم و بحمدک، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 775)
"اے اللہ! تو پاک ہے،( ہم )تیری حمد کے ساتھ (تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں)۔ تیرا نام بڑی برکت والا ہے اور تیری بزرگی بلند ہے۔ اور تیرے سوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے، اللہ کےسوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے، اللہ کےسوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے، اللہ کےسوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے۔اللہ بہت بڑا ہے سب سے بڑا، اللہ بہت بڑا ہے سب سے بڑا، اللہ بہت بڑا ہے سب سے بڑا"۔
نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم یہ دعا رات کی نفلی نماز میں پڑھتے تھے۔

پانچویں دعا:
اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
(صحیح مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب ما یقال بین التکبیرۃ الاحرام و القراءۃ)
"اللہ سب سے بڑا ہے۔ بہت بڑا۔ اس کے لیے حمد و شکر ہے بہت زیادہ۔ وہ (ہر عیب سے) پاک ہے۔ صبح و شام ہم اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں"
ایک صحابی نے ان کلمات سے نماز کا آغاز کیا تو نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
عَجِبْتُ لَهَا فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ
(صحیح مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب ما یقال بین التکبیرۃ الاحرام و القراءۃ)
"اِن الفاظ کو (اللہ کی طرف سے اتنا )پسند کیا گیا کہ ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے"

چھٹی دعا:
الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ
(صحیح مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب ما یقال بین التکبیرۃ الاحرام و القراءۃ)
"تمام تعریف اور حمد اللہ کے لیے ہے، بکثرت ، پاکیزہ اور برکت دی گئی (حمد اور تعریف)۔
ایک صحابی نے ان کلمات کے ساتھ اپنی نماز کا آغاز کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
لَقَدْ رَأَيْتُ اثْنَيْ عَشَرَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا أَيُّهُمْ يَرْفَعُهَا
(صحیح مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب ما یقال بین التکبیرۃ الاحرام و القراءۃ)
"میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا جو اس کوشش میں تھے کہ کون پہلے ان الفاظ کواوپر (اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں لے جانے کے لیے) اُٹھاتا ہے"۔

ساتویں دعا:
أَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ مَلِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ حَقٌّ وَقَوْلُكَ حَقٌّ وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ وَمُحَمَّدٌ حَقٌّ اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ وَبِكَ خَاصَمْتُ وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ أَنْتَ رَبُّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيْرُ فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهٖ مِنِّيْ أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ أَنْتَ إِلٰهِیْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ
(صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالیٰ و ھو الذی خلق السماوات والارض، صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب الدعاء فی صلاۃ الیل و قیامہ، ابو عوانہ، ابو داؤد، وابن نضر، وا لدارمی۔ یہاں امام البانی نے ان تمام روایات میں مذکور الفاظ کو جمع کر دیا ہے)
"اے اللہ! حمد وشکر تیرے ہی لیے ہے۔ تو نور ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان کا بھی۔حمد و شکرتیرے لیے ہے تو قائم رکھنے والا ہے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اس کو بھی۔ اور حمد و شکر تیرے ہی لیے ہے، تو رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان کا بھی۔اور تیرے لیے حمد و شکر ہے، تیری ذات برحق ہے، تیرا وعدہ سچا ہے، تیری باتیں حق ہیں، (قیامت کے دن) تیری ملاقات حق ہے، جنت اور جہنم برحق ہیں، انبیاء برحق تھے اور محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) برحق (سچے نبی)ہیں، قیامت (کا آنا) برحق ہے۔ اے اللہ! میں نے خود کو تیرا مطیع کر دیا، میں تجھ پر ایمان لایا، تجھ پر توکل کیا، تیری ہی طرف میں رجوع کرتا ہوں، تیری ہی مدد سے میں جھگڑا کرتا ہوں اورتیرے ہی فیصلے کا طلبگار رہتا ہوں۔ پس تو میرے اگلے ،پچھلے، پوشیدہ اور ظاہر تمام گناہوں کو معاف فرما دے۔ تو ہی اول ہے تو ہی آخر ہے، تو ہی میرا معبود ہے، تیرے سوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کی طاقت (عطا کرنا بھی) تیرے سوا کسی کے بس میں نہیں"۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم یہ دعا رات کے نوافل میں پڑھا کرتے تھے۔

آٹھویں دعا:
اللَّهُمَّ رَبَّ جَبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب الدعاء فی صلاۃ الیل و قیامہ)
"اے اللہ! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب! آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے! پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ حق کے بارے میں جو اختلاف کیا گیا ہے اس میں مجھے اپنے حُکم سے (درست بات کی) ہدایت عطا فرما، بے شک تو جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے دیتا ہے"۔

نویں دعا:
بعض دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم رات کی نفل نماز میں تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد دس دفعہ اللہ اکبر، دس دفعہ الحمدللہ، دس دفعہ سبحان اللہ، دس دفعہ لا الٰہ الا اللہ اور دس دفعہ استغفراللہ کہتے پھر دس دفعہ ہی یہ دعا فرماتے:
أَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ وَاهْدِنِيْ وَارْزُقْنِيْ وَعَافِنِيْ
"اللہ! میری مغفرت فرمادے، مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق اور عافیت عطا فرما"
پھر دس مرتبہ یہ دعا فرماتے تھے:
أَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوذُ بِكَ مِنَ الضِّيْقِ يَوْمَ الْحِسَابِ
(صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1356، مسند احمد، مصنف ابن ابی شیبۃ)
"اللہ! میں تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں قیامت کے دن کی تنگی سے "

دسویں دعا:
رات کی نفلی نمازشروع کرنے کا ایک اور طریقہ جو سنت مطہرہ سے ملتا ہے یہ ہے کہ تین دفعہ اَللہُ أَ کْبَر کہ کر درج ذیل دعا پڑھی جائی:
ذُو الْمَلَكُوتِ وَالْجَبَرُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 874، و رواہ الطیالسی ایضا)
"(اللہ) بادشاہت، غلبہ، کبریائی اور عظمت کا مالک (ہے)"۔

Monday, January 4, 2010

نیت، تکیبر تحریمہ اور قیام کے مسائل

            نماز کی نیت کا بیان

نماز ادا کرنے سے پہلے اس کی نیت کرنی ضروری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ہے:
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى (صحیح البخاری کتاب البدء الوحی، حدیث نمبر1)
"اعمال نیتوں کے ساتھ ہیں اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی"
نیت کب کی جائے:
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  نے “روضۃ الطالبین” میں لکھا ہے کہ" نیت کا مطلب ارادہ کرنا ہے۔ نماز کی نیت تکبیر تحریمہ کہتے وقت کی جانی چاہیے یعنی نمازی اس وقت اپنے ذہن میں خیال کرے کہ وہ کون سی نماز ادا کرنے جا رہا ہے ، مثلا یہ کہ نماز کی رکعات کتنی ہیں اور وہ ظہر کی نماز ہے یانفل نماز ہے وغیرہ"۔[1]
زبان سے نیت کے الفاظ کہنا بدعت ہے:
زبان سے نیت کے الفاظ کہنا سنت مطہرہ سے ثابت نہیں ہے۔ لوگوں میں زبانی نیت کے جو کلمات مشہور ہیں مثلًا “نیت کی میں نے اس نماز کی، خاص واسطے اللہ تعالیٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف” وغیرہ   ان کے بدعت ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ البتہ انہوں نےاس کے اچھا یا برا ہونے میں اختلا ف کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ عبادات میں کیا گیاہر اضافہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دین میں نئی چیزیں نکالنے سےمنع کرتے ہوئے  ہر بدعت سے بچنے کا حکم دیا ہے:
وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ (سنن النسائی الصغریٰ کتاب صلاۃ العیدین باب کیف الخطبہ، صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 1578)
                    "اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ( یعنی جہنم) میں ہے"

            تکبیر تحریمہ اورقیام کے مسائل

جب نمازی  قبلہ رخ کھڑے ہو کر نماز شروع کرنے کا ارادہ کرے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں یا کانوں کی لو تک بلند کر کے “اللہ اکبر” کہے۔ اسے تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔ یہ نماز کے ارکان میں سے ہے یعنی اسے کہے بغیر نماز درست نہیں ہوتی۔
تکبیر تحریمہ کہنا ضروری ہے
  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنی نماز کا آغاز "اللہ اکبر"[2] کہہ کر فرمایا کرتے تھے۔ ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والےایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے فرمایا تھا:
إِنَّهُ لا تَتِمُّ صَلاةٌ لأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ فَيَضَعَ الْوُضُوءَ مَوَاضِعَهُ ، ثُمَّ يَقُولُ : اللَّهُ أَكْبَرُ (المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر4399)
"لوگوں میں سے کسی کی نماز اس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک وہ اچھی طرح وضو  کرنے کے بعد  "اللہ اکبر" نہ کہہ لے" 
جمہور علماء کے نزدیک اس حدیث کی روشنی میں نمازکا آغاز “اللہ اکبر” کے سوا دوسرے الفاظ (جیسے “الرحمٰن اکبر وغیرہ )سے نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری حدیث میں ہے:
مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فرض الوضوء، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 139)
"طہارت (یعنی وضو) نماز کی کنجی ہے، اور تکبیر تحریمہ کہنا نماز کی حُرمت ہے (یعنی اس سے نماز کی حرمت  کا آغاز ہو جاتا ہے اوروہ تمام کام حرام ہو جاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے نماز میں منع فرمایا ہے) اور ( پھر نماز کے آخر پر)سلام کہنے سے حلال ہوتے ہیں"۔
گویا جس طرح کسی عمارت میں داخلے کے لیے اس کا دورازہ کھولنا ضروری ہوتا ہے اسی طرح ناپاکی کی حالت انسان اور نماز کے درمیان حائل ہوتی ہے جسے کھولے بغیر نماز کا آغاز نہیں کیا جا سکتا اوروضو اور طہارت  ہی وہ کنجی ہیں جن کے ذریعے آدمی ناپاکی کے اس دروازے کو کھول کر نماز میں داخل ہو سکتا ہے۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں منع کیے گئے کاموں اس وقت تک ممنوع ہی رہتے ہیں جب تک نمازی سلام نہ پھیر دے، جمہور کا مذہب یہی ہے۔
امام اور مقتدی دونوں تکبیر تحریمہ کہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب جماعت کرواتے توتکبیر تحریمہ کو بلند آواز سے کہا کرتے تھے تا کہ پیچھے موجود تمام نمازیوں تک آواز پہنچ جائے[3]۔جب کبھی آپ  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بیمار ہوتے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ اونچی آواز سے تکبیر کہتے تا کہ لوگوں کو ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تکبیر کی خبر ہو جائے[4]۔ امام اور مقتدی دونوں کو تکبیر تحریمہ کہنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
إذا قال الإمام : الله أكبر فقولوا : الله أكبر (احمد و البیہقی بسند صحیح، مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری)
"جب امام "اللہ اکبر"کہے تو تم بھی "اللہ اکبر"کہاکرو"۔
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ  امام کی بیماری، نمازیوں کی کثرت یا کسی دوسرے عذر کی موجودگی میں موذن یا کسی دوسرے مقتدی کے لیے  امام کے پیچھے پیچھے بلند آواز میں تکبیرات کہنا جائز ہے  تا کہ باقی تمام لوگوں تک آواز پہنچ سکے اوراس کا  طریقہ یہ ہے  کہ تکبیر بلند کرنے والا شخص امام کی تکبیر ختم ہونے کے فورًا بعد اپنی تکبیر شروع کرے ۔  البتہ اکیلے نماز پڑھنے والا شخص اپنی تکبیرات آہستہ ہی کہے گا۔
تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہاتھ کیسے اٹھائے جائیں:
تکبیر تحریمہ کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک[5] اور بعض دفعہ کانوں (کی لو) تک  بلندکرنا سنت ہے[6]۔  البتہ ایسا کرتے وقت کانوں کو چھونا سنت سے ثابت نہیں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کبھی تو تکبیرتحریمہ کہنےکے  ساتھ ہی ہاتھوں کو بلند فرما لیا کرتے تھے[7] اور کبھی کبھار پہلے ہاتھ اٹھا لیتے اور پھر تکبیر کہتے اور کبھی تکبیر کہنے کے فورًا بعد ہاتھ اٹھاتے تھے[8]  لہذاکسی ایک سنت پر  عامل ہونے کی بجائے ان تینوں طریقوں کو اپنی نمازوں  میں ادل بدل کر اختیار کرنا چاہیے کیونکہ یہ سب حدیث سے ثابت ہیں۔
  ہاتھ اٹھاتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  ہاتھوں کی انگلیوں کو فطری انداز میں کھلا رکھتے تھے یعنی ان کے درمیان جان بوجھ کر فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش نہیں فرماتے تھے اور نہ ہی ان کو ملاتے تھے  بلکہ اپنی اصل حالت میں چھوڑدیتے تھے [9]۔
دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر رکھنے کا حکم:
تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے[10] یہ انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاپنے فرمان مبارک میں بتایا ہے:
إنا معشر الأنبياء أُمِرنَا أن نعجِّل إفطارنا و نؤخر سحورنا و نضع أيماننا على شمائلنا في الصلاة (صحیح الجامع الصغیر حدیث نمبر، 4050، صحیح ا بن حبان کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ
"ہم انبیاء کی جماعت  کوافطار  میں جلدی  اور سحری میں تاخیرکرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ (حکم بھی دیا گیا ہے کہ) کہ ہم نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پررکھیں"۔
 ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گذرے جو باہنے ہاتھ کو داہنے ہاتھ کے اوپر رکھ کر نماز ادا کر رہا تھا تو انہوں نے اس کے ہاتھ کو کھینچا اور دائیں کو بائیں کے اوپر کر کے رکھ دیا۔[11]
ہاتھ کیسے باندھے جائیں:
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہمیشہ سینے پر ہاتھ باندھا کرتے تھے[12] اور اس کی کیفیت یہ ہوتی کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پراس طرح رکھتے کہ وہ ہتھیلی کی پشت، جوڑ اور کلائی پر آ جائے[13]   اسی کا حکم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی دیا[14]۔ کبھی کبھار دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کوتھام لیا کرتے تھے[15]۔ یہ دونوں اپنی جگہ الگ الگ سنت ہیں۔ حنفیہ میں بعض متاخرین نے ان دونوں کو اکٹھا کرکے جو طریقہ بیان کیا ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا جائے، درمیانی انگلیاں کلائی پر ہوں اور چھوٹی انگلی اور انگوٹے سے کلائی تو تھاما جائے تو وہ بدعت ہے اس لیے ان کے قول سے دھوکہ نہ کھانا چاہیے۔ افضل یہ ہے کہ  کبھی بائیں ہتھیلی کی پشت، جوڑ اور کلائی پر دایاں ہاتھ رکھا جائے اور کبھی دائیں ہاتھ سے بائیں کو تھاما جائے تا کہ دونوں سنتوں پر عمل ہوتا رہے۔
 نماز میں پہلوؤں پر ہاتھ رکھنے سے منع فرمایا [16] گیا ہے (کیونکہ) یہ صلیب پرستوں کا انداز ہے اور یہود و نصارٰی کی مشابہت اختیار کرنا  سے  مسلمانوں کے لیے ممنوع ہے۔[17]
سینے پر ہاتھ باندھنا ہی سنت سے ثابت ہے:
سینے پر ہاتھ باندھنا سنت مطہرہ سے ثابت ہے  اس کے خلاف جو کچھ بھی ہے وہ یا تو ضعیف ہے یا اس کی کوئی اصل ہی نہیں۔ امت کے کئی بڑے امام اسی طریقے پر عامل رہے ہیں مثلا امام اسحاق بن راہویہؒ کے متعلق امام المروزی “المسائل” ص  222میں لکھتے ہیں:
“امام اسحاقؒ ہمیں وتر کی نماز پڑھایا کرتے تھے۔ وہ رکوع سے قبل ہاتھ اٹھا کر قنوت کیا کرتے  تھے اور (نماز میں) اپنے ہاتھ سینے پر رکھتے تھے”۔
اسی سے ملتی جلتی بات قاضی عیاض المالکیؒ نے “مستحبات الصلاۃ” (ص15۔ الطبعۃ الثالثۃ۔ الرباط) میں کہی ہے کہ “دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر گردن کے قریب رکھا جائے”
امام احمد بن حنبل ؒ کے صاحبزادے عبداللہ بن احمدؒ “المسائل ۔ص 62) کہتے ہیں “ میں نے اپنے والد (امام احمد بن حنبلؒ) کو دیکھا کہ جب وہ نماز پڑھتے تو ایک ہاتھ کو دوسرے پر رکھ کر ناف کے اوپر باندھا کرتے تھے” دیکھیے “ارواء الغلیل ص 353۔


[1]                  ۔  روضۃ الطالبین 1/224
[2]                  ۔ صحیح مسلم  بَاب مَا يَجْمَعُ صِفَةَ الصَّلَاةِ وَمَا يُفْتَتَحُ بِهِ وَيُخْتَمُ بِهِ وَصِفَةَ الرُّكُوعِ
[3]                  ۔ مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری،  المستدرک کتاب الامامۃ و و صلاۃ الجماعۃ باب حدیث عبدالوہاب، امام حاکم نے اسے صحیح کہا اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
[4]                  ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب من أسمع الناس تکبیر الامام، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ائتمام الماموم بالامام۔
[5]                            ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الیٰ این یرفع یدیہ
[6]                            ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام ،
[7]                            ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الیٰ این یرفع یدیہ
[8]                            ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام حدیث مالک بن الحویرث  رضی اللہ عنہ
[9]                            ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، صحیح سنن ابی داؤد  حدیث نمبر 753
[10]                         ۔ سنن ابی داؤد  کتاب الصلاۃ باب رفع الیدین فی الصلاۃ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ۔ صحیح سنن ابی داؤد  حدیث نمبر 727
[11]                         ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلاۃ حدیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، صحیح سنن ابن داؤد حدیث نمبر 755
[12]                         ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب وضع الیمنٰی علی الیسریٰ ۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 759۔صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر 479۔ مسند احمد بن حنبل مسند الانصار  حدیث ھلب الطائی  رضی اللہ۔
[13]                         ۔ سنن ابی داؤد  کتاب الصلاۃ باب رفع الیدین فی الصلاۃ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ۔ صحیح سنن ابی داؤد  حدیث نمبر 727
[14]                         ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب وضع الیمنٰی علی الیسریٰ فی الصلاۃ حدیث سھل بن سعد رضی اللہ عنہ، الموطا امام مالک کتاب النداء للصلاۃ باب وضع الیدین احداھما علی الاخریٰ فی الصلاۃ
[15]                       ۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 2247 جلد 5 ص 246۔ صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 1031۔
[16]                         ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الرجل یصلی مختصرا۔صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 947
[17]                         ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی التخصر و الاقعاء، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 903