Saturday, October 30, 2010

قومے کے مسائل

جب آپ رکوع میں تسبیحات اور اذکار وغیرہ پڑھنے سے فارغ ہو جائیں تو سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے ہوئے اطمینان کے ساتھ اٹھیں اور انگلیوں کو فطری انداز میں کھلا رکھتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کانوں یا کندھوں تک بلند کریں[1]۔ پھر ہاتھوں کو باندھے بغیر سیدھے کھڑے ہو جائیں اور رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ یا کوئی دوسرا مسنون ذکر پڑھیں جن کا ذکر آگے آ رہا ہے۔رکوع کے بعد سیدھے کھڑے ہونا نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ اسے قومہ کہا جاتا ہے جبکہ رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ کو تحمید کہتے ہیں۔
سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اور رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ  کہنے  کی فضیلت اورمسائل:
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ  اور  رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ کہنے کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ يَسْمَعُ اللَّهُ لَكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب التشھد، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر ۹۷۲)
ٍ " جب(امام) سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے تو (اس کے بعد)تم سب (مقتدی) اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہا کرو، اللہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی زبانی کہہ چکا ہے کہ جس نے اللہ کے حمد بیان کی، اللہ نے اس کی سن لی"
ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ اس بارے میں یہ فرمان رسول بیان کرتے ہیں:
إِذَا قَالَ الْإِمَامُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب التسمیع و التحمید و التأمین)
" جب امام سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے تو تم(اس کے بعد) اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہا کرو کیونکہ (فرشتے بھی اس وقت یہی کہتے ہیں پس) جس کا قول فرشتوں کے قول سے مل گیا اس کے پچھلے(صغیرہ) گناہ معاف کر دیے گئے"
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امام کے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہنے سے پہلے فرشتے تحمید نہیں کہتے اس لیے تم بھی ایسا نہ  کرو بلکہ امام سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہہ لے تو اس کے بعدتحمید کہو۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امام صرف سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اور مقتدی صرف  رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ کہے بلکہ امام اور مقتدی دونوں کو یہ کلمات کہنے چاہئیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنی نماز میں ان دونوں کو کہا کرتے تھے[2]  اور صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي[3] (اس طرح نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو) کے عمومی حکم کے پیش نظر امام، مقتدی اور اکیلے نماز پڑھنے والے غرض ہر نمازی کو اس سنت پر عمل کرنا چاہیے۔ امام شافعی، امام احمد اور حنفیہ میں امام محمد، ابویوسف اور امام طحاوی نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔
قومے کی کم سے کم مقدار:
قومے سے متعلق دوسرا انتہائی اہم مسئلہ اسے اطمینان اور سکون سے ادا کرنے کا ہے جس کی کم سے کم مقدار یہ ہے کہ نمازی اتنی دیر تک کھڑا رہے کہ کمر کے تمام مہرے اور ہڈیاں اپنی اپنی جگہ پر واپس آ کر ٹھہر جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے:
فَإِذَا رَفَعْتَ رَأْسَكَ فَأَقِمْ صُلْبَكَ حَتَّى تَرْجِعَ الْعِظَامُ إِلَى مَفَاصِلِهَا
(مسند احمد مسند الکوفیین حدیث رفاعۃ بن رافع رضی اللہ عنہ۔ صحیح و ضعیف الجامع الصغیر حدیث نمبر ۳۲۴)
"جب تو (رکوع سے )اپنا سر اٹھائے تو اپنی کمر  سیدھی کر، یہاں تک کہ(کمر کی ہڈیاں) اپنے اپنے جوڑوں پر واپس ہو جائیں"
نماز کی درستگی کے لیے یہ کم سے کم تقاضا ہے جسے پورا  نہ کرنے والے شخص کی نماز نامکمل رہتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ہے:
إِنَّهُ لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ مِنْ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ثُمَّ يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا
(سنن ابی داؤد  کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود۔  صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر ۸۵۷)
" لوگوں میں کسی کی بھی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ وضو نہ کرلے ۔ ۔ ۔ ۔(اورتبھی مکمل ہوتی ہے جب وہ رکوع کے بعد) سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے یہاں تک کہ بالکل سیدھا کھڑا ہو جائے"
اوراس نامکمل نماز کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا وقعت ہوتی ہے اس کا ذکر ایک دوسرے فرمان رسول میں ملتا ہے:
لَا يَنْظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى صَلَاةِ عَبْدٍ لَا يُقِيمُ فِيهَا صُلْبَهُ بَيْنَ رُكُوعِهَا وَسُجُودِهَا
(مسند احمد مسند المدنیین حدیث طلق بن علی، السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر ۲۵۳۶)
"اللہ عز و جل اس شخص کی نماز کی طرف دیکھتا بھی نہیں ہے جو رکوع اور سجدے کے درمیان اپنی کمر  سیدھی نہیں کرتا"
جس نماز کی طرف دیکھنا بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پسند نہ ہو اس کی قبولیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے نمازیوں کو اس رکن کی ادائیگی میں جلدی کرنے سے بچنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ ان کی ساری محنت برباد ہو جائے اور وہ اللہ عز و جل کی ناراضی کے مستحق بن جائیں۔
سنت مطہرہ سے ایک جھلک
قومے میں اطمینان اور سکون اختیار کرنے کے بارے میں صرف زبانی حکم ہی نہیں ملتے بلکہ سنت مطہرہ میں اس کی عملی صورت بھی امت کے سامنے رکھ دی گئی ہے۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ نماز نبوی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جتنی دیر رکوع فرماتے تھے قریبًا اتنی ہی دیر رکوع کے بعد کھڑے رہتے اور اتنی ہی دیر دو سجدوں کے درمیان بیٹھتے تھے[4] اور بعض دفعہ تو رکوع کے بعد اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ دیکھنے والا گمان کرتا کہ آپ سجدہ کرنا بھول گئے ہیں[5]۔ ایک مرتبہ رات کو تہجد کی نماز میں رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد اتنی دیر تک لِرَبِّيَ الْحَمْدُ  کی تکرار کرتے رہے جتنی دیر میں سورۃ البقرۃ پڑھی جا سکتی ہے[6]۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس طرح کی طوالت انفرادی نمازوں میں ہونی چاہیے۔ اگر کوئی شخص امامت کروا رہا ہو تو اسے ہلکی نماز پڑھانے کا حکم ہے جس کی تفصیل اس کتاب میں پیچھے گزر چکی ہے۔


[1] ۔ اس کی تفصیل پیچھے ـمسئلہ رفع الیدین ـ کے تحت گزر چکی ہے۔
[2] ۔ مثلا یہ بات صحیح البخاری کتاب الاذان باب الی این یرفع یدیہ میں بیان ہوئی ہے۔
[3] ۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب الأذان للمسافر اذا کانوا جماعۃ و الاقامۃ و کذلک بعرفۃ
[4] ۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب الطمأنینۃ حین یرفع رأسہ من الرکوع
[5] ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الطمأنینۃ حین یرفع رأسہ من الرکوع
[6] ۔سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ۔ صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر ۸۷۴

0 تبصرے:

تبصرہ کریں ۔۔۔