ظہر اور عصر کی نمازوں میں آہستہ آواز سے یعنی سری قراءت کرنی چاہیے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں دعائے استفتاح (سبحانک اللھم و بحمدک ۔ ۔۔)، تعوذ اور بسملہ کے بعد آہستہ آواز میں سورۃ الفاتحہ پڑھی جائے، پھر قرآن مجید کی کوئی سی دوسری سورت ملائی جائے اور اسے بھی آہستہ آواز ہی میں پڑھا جائے۔ دوسری رکعت پہلی رکعت کے مثل ہے یعنی اس میں تعوذ، بسملہ، فاتحہ اور ملائی جانے والی سورت پڑھی جائے گی فرق صرف یہ ہے کہ اس میں دعائے استفتاح نہیں پڑھی جاتی[1]۔تیسری اور چوتھی رکعت کا آغاز تعوذ اور بسملہ سے کرنے کے بعدنمازی کو اختیار ہے چاہے تو سورت الفاتحہ کے فورًا بعد رکوع میں چلا جائے[2] اور چاہے تو اس کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھ کر رکوع کر لے لیکن اگر وہ سورت ملانا چاہے تو اس کا سنت طریقہ یہ ہے کہ آخری دو رکعتوں کو پہلی دونوں رکعتوں کی نسبت مختصر پڑھا جائے، یعنی اگر پہلی رکعتوں میں تیس آیات کے بقدر تلاوت کی ہے تو آخری دونوں میں پندرہ آیات کے قریب کی جائے[3]۔ واضح رہے کہ آیات کو اس مقدار کے مطابق پڑھے جانے کو اتباع سنت کے جذبے سے دیکھا جانا چاہیے ورنہ قرآن مجید میں سے جو بھی اور جس قدر بھی آسان لگے اس کی تلاوت کی جا سکتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ظہر و عصر میں عمومًا سری قراءت فرماتے تھے لیکن کبھی کبھار بیچ میں کوئی آیت بلند آواز سے بھی پڑھ دیا کرتے تھے جس سے سننے والوں کو معلوم ہو جاتا کہ آپ کون سی سورت پڑھ رہے ہیں[4] نیز قراءت کرتے ہوئے آپ کی ریش مبارک ہلا کرتی تھی جس سے دیکھنے والے جان لیتے تھے کہ آپ قراءت فرما رہے ہیں [5]۔
ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ظہر کی نماز میں بعض دفعہ اتنا لمبا قیام فرمایا کرتے تھے کہ نماز شروع ہونے کے بعد کوئی شخص بقیع میں جا کر اپنی ضرورت پوری کر کےگھر میں آتا، پھر وضو کرنے کے بعد مسجد میں پہنچتا تو ابھی پہلی رکعت جاری ہوتی تھی [6]۔ نماز کو لمبا کرنے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ نمازی پہلی رکعت جماعت کے ساتھ پا لیں [7]۔ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کے اندازے کے مطابق ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں قیام کی مقدار اتنی ہوتی تھی جس میں تیس آیات بشمول سورۃ الفاتحہ بقدر سورۃ السجدہ پڑھی جا سکیں اورآخری دونوں رکعتوں میں اس سے نصف یعنی پندرہ آیات پڑھنے کے بقدر قیام فرماتے تھے۔جبکہ عصر کی نماز ظہر سے مختصر ہوتی تھی جس کی پہلی دو رکعتوں میں پندرہ آیات اور آخری دو رکعتوں میں اس سے نصف کے بقدر قیام ہوتا تھا [8]۔
دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے درج ذیل سورتیں بھی ظہر یا عصر کی نماز میں پڑھی ہیں:
1۔ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى (سورت نمبر 87 کل آیات 17) اور هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الغَاشِيَةِ (سورت نمبر 88 کل آیات 26) [9]
2۔ السَّمَاءِ ذَاتِ البُرُوجِ (سورت نمبر 85 کل آیات 22) اور وا لسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ (سورت نمبر 86 کل آیات 17) [10]
3۔ و اللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى (سورت نمبر 92 کل آیات 21) [11]، إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ (سورت نمبر 84 کل آیات 25) [12] اور ان جیسی دوسری سورتیں
سری نمازوں کی ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنی لازم ہے[13] اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک صحابی کو نماز کی پہلی رکعت پڑھنے کا طریقہ سکھاتے ہوئےاس میں قرآن (یعنی فاتحہ) پڑھنے کا حکم دیا اور پھر فرمایا:
"پھر اپنی (باقی کی) تمام نماز میں بھی ایسا ہی کر"
دوسری روایت میں ہے:
"پھر ہر رکعت میں ایسا ہی کر"
چنانچہ جن لوگوں نے آخری دو رکعت میں خاموش کھڑے رہنے یا تسبیح و تہلیل کو کافی قرار دیا ہے ان کی بات درست نہیں ہے۔